Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 37
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ١ؕ سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ
خُلِقَ : پیدا کیا گیا الْاِنْسَانُ : انسان مِنْ : سے عَجَلٍ : جلدی (جلد باز) سَاُورِيْكُمْ : عنقریب میں دکھاتا ہوں تمہیں اٰيٰتِيْ : اپنی نشانیاں فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ : تم جلدی نہ کرو
انسان (کچھ جلدباز ہے کہ گویا) جلد بازی ہی سے بنایا گیا ہے میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھلاؤں گا تو تم جلدی نہ کرو
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : خلق الانسان من عجل یعنی عجلت پر مکرکب کیا گیا ہے۔ اس کی فطرت میں تیزی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ الذی خلقکم من ضعف (الروم :54) یعنی انسان ضعیف پیدا کیا گیا ہے کہا جاتا ہے : خلق الانسان من الشر یعنی شریر پیدا کیا گیا ہے۔ جب کسی کے وصف شر میں مبالغہ کرنا ہو تو اس طرح کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : أنت ذھاب و مجی یعنی تو آنے، جانے والا ہے، یعنی انسان کی طبع میں عجلت رکھی گئی ہے۔ بہت سی اشیاء کے لیے جلدی کرتا ہے اگرچہ وہ اس کے لیے مضر بھی ہوں پھر بھی بعض علماء نے فرمایا : انسان سے حضرل مراد آدم (علیہ السلام) ہیں۔ سعید بن جبیر اور سدی نے کہا : جب روح حضرت آدم (علیہ السلام) کی آنکھوں میں داخل ہوئی تو انہوں نے جنت کے پھلوں کو دیکھا جب روح پیٹ میں داخل ہوئی تو کھانے کا شوق کیا، ٹانگوں میں روح پہنچنے سے پہلے جنت کے پھلوں کی طرف جلدی کی اللہ تعالیٰ کے ارشاد : خلق الانسان من عجل سے یہی مراد ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : حضرت آدم (علیہ السلام) کو جمعہ کے دن آخری وقت میں پیدا کیا گیا جب اللہ تعالیٰ نے ان کے سر کو زندہ کیا تو انہوں نے جلدی کی اور سورج کے غروب ہونے سے پہلے اس میں روح پھونکنے کی تکمیل طلب کی، یہ کلبی اور مجاہد وغیرہ کا قول ہے۔ ابو عبیدہ اور بہت سے اہل معانی نے کہا : حمیر قبیلہ کی لغت میں العجل مٹی کو کہتے ہیں اور بطور استشہادیہ شعر پڑھا : والنخل ینبت بین الماء والعجل بعض علماء نے فرمایا : انسان سے مراد تمام انسان ہیں۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد نضر بن حرث بن علقمہ بن کلدہ بن عبد الدار ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی تفسیر میں ہے جو حقیر مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی آیات اور رسول کریم ﷺ کے معجزات سے استہزاء مناسب نہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ مقلوب ہے یعنی خلق العجل من الانسان، یہ ابو عبیدہ کا مذہب ہے۔ نحاس نے کہا : یہ قول ایسا ہے کہ کتاب اللہ میں اس کے ساتھ جواب دینا مناسب نہیں کیونکہ قلب اشعار میں اضطراری طور پر واقع ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : کان الزنا فریضۃ الرجم زنا (رجم کا فریضہ ہے) اس کی مثال یہ آیت ہے : خلق الانسان من عجل یہ سورة سبحان میں گزر چکا ہے۔ ساوریکم ایتی فلا تستعجلون۔ یہ پہلے کی تائید کرتا ہے۔ طبع انسان میں عجلت ہے اس کی ایسی تخلیق کی گئی ہے کہ یہ برداشت نہیں کرتا جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ یہ سورة سبحان میں گزر چکا ہے۔ اور آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت محمد ﷺ کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں۔ وہ محمود انجام ہے جو اپنے محبوب کے لیے بنایا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : آیات سے مراد وہ عذاب ہے جو انہوں نے طلب کیا تھا اور انہوں نے استعجال کا ارادہ کیا تھا انہوں نے کہا : متی ھذا الوعد انہیں معلوم نہیں تھا کہ ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ یہ نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور انہوں نے جب کہا : ان کان ھذا ھو الحق (الانفال :32) (اگر یہ حق ہے) اخفش سعید نے کہا : خلق الانسان من عجل اس کا معنی ہے اس کو کہا گیا : کن (ہو جا) فکان (تو ہوگیا) فلا تستعجلون اس قول کی بناء پر جو کہ کسی چیز کو کن کہتا ہے تو وہ ہوجاتی ہے۔ وہ بات جس کے لیے وہ جلدی کر رہے ہیں اس کا اظہار کرنا اس کو عاجز نہیں کرتا۔ ویقولون متی ھذا الوعد یعنی اس کا وعدہ کیا گیا ہے جیسے کہا جاتا ہے : اللہ رجائنا بمعنی مرجونا۔ بعض نے فرمایا : الوعید یہاں بمعنی وعید ہے یعنی جس عذاب کا وہ ہم سے وعدہ کرتا ہے۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد قیامت ہے۔ ان کنتم صدقین۔ اے مومنین کے گروہ ! اگر تم سچے ہو۔
Top