Al-Qurtubi - An-Nisaa : 102
وَ اِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْۤا اَسْلِحَتَهُمْ١۫ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِكُمْ١۪ وَ لْتَاْتِ طَآئِفَةٌ اُخْرٰى لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْا حِذْرَهُمْ وَ اَسْلِحَتَهُمْ١ۚ وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَ اَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْكُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَنْ تَضَعُوْۤا اَسْلِحَتَكُمْ١ۚ وَ خُذُوْا حِذْرَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا
وَاِذَا : اور جب كُنْتَ : آپ ہوں فِيْهِمْ : ان میں فَاَقَمْتَ : پھر قائم کریں لَھُمُ : ان کے لیے الصَّلٰوةَ : نماز فَلْتَقُمْ : تو چاہیے کہ کھڑی ہو طَآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْھُمْ : ان میں سے مَّعَكَ : آپ کے ساتھ وَلْيَاْخُذُوْٓا : اور چاہیے کہ وہ لے لیں اَسْلِحَتَھُمْ : اپنے ہتھیار فَاِذَا : پھر جب سَجَدُوْا : وہ سجدہ کرلیں فَلْيَكُوْنُوْا : تو ہوجائیں گے مِنْ وَّرَآئِكُمْ : تمہارے پیچھے وَلْتَاْتِ : اور چاہیے کہ آئے طَآئِفَةٌ : جماعت اُخْرٰى : دوسری لَمْ يُصَلُّوْا : نماز نہیں پڑھی فَلْيُصَلُّوْا : پس وہ نماز پڑھیں مَعَكَ : آپ کے ساتھ وَلْيَاْخُذُوْا : اور چاہیے کہ لیں حِذْرَھُمْ : اپنا بچاؤ وَاَسْلِحَتَھُمْ : اور اپنا اسلحہ وَدَّ : چاہتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ تَغْفُلُوْنَ : کہں تم غافل ہو عَنْ : سے اَسْلِحَتِكُمْ : اپنے ہتھیار (جمع) وَ : اور اَمْتِعَتِكُمْ : اپنے سامان فَيَمِيْلُوْنَ : تو وہ جھک پڑیں (حملہ کریں) عَلَيْكُمْ : تم پر مَّيْلَةً : جھکنا وَّاحِدَةً : ایک بار (یکبارگی) وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر اِنْ : اگر كَانَ : ہو بِكُمْ : تمہیں اَذًى : تکلیف مِّنْ مَّطَرٍ : بارش سے اَوْ كُنْتُمْ : یا تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَنْ تَضَعُوْٓا : کہ اتار رکھو اَسْلِحَتَكُمْ : اپنا اسلحہ وَخُذُوْا : اور لے لو حِذْرَكُمْ : اپنا بچاؤ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اَعَدَّ : تیار کیا لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابًا : عذاب مُّهِيْنًا : ذلت والا
اور (اے پیغمبر ﷺ جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے جب وہ سجدہ کر چکیں تو پرے ہوجائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو کر تمہارے ساتھ نماز ادا کرے کافر اس گھات میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامانوں سے غافل ہوجاؤ تو تم پر یکبارگی حملہ کردیں اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں ہو یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا خدا نے کافروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے
آیت نمبر 103 : اس آیت میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوۃ “۔ دارقطنی نے ابو عیاش زرقی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا ؛ ہم رسول اللہ ﷺ کے عسفان میں تھے، مشرکین سے ہمارا مقابلہ ہوا ان کے جرنیل خالد بن ولید تھے اور ہمارے اور قبلہ کے درمیان تھے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی مشرکین نے کہا : مسلمان اس حالت پر ہیں کہ ہم ان پر حملہ کریں، فرمایا : پھر کہا ابھی مسلمانوں پر ایسی نماز کا وقت ہونے والا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹوں اور اپنے نفسوں سے زیادہ عزیز ہے، فرمایا : جبریل امین ظہر اور عصر کے درمیان یہ آیت کریمہ لے کر آئے (1) (المستدرک للحاکم، صلوۃ الخوف، جلد 1، صفحہ 4386، حدیث نمبر 1252) (آیت) ” واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوۃ “۔ آگے حدیث پوری ذکر کی، مکمل حدیث انشاء اللہ آگے آئے گی۔ یہ حضرت خالد ؓ کے اسلام کا سبب تھا یہ آیت سابقہ جہاد کے ذکر سے متصل ہے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ نماز سفر اور جہاد اور دشمن کے قتال کے عذر سے بھی ساقط نہیں ہوتی لیکن اس میں رخصت ہے جیسا کہ سورة بقرہ میں اور اس سورت میں علماء کے اختلاف کا بیان گزر چکا ہے، یہ خطاب نبی مکرم ﷺ کو ہے اور قیامت تک بعد کے امراء کو شامل ہے اس کی مثل یہ ارشاد ہے : (آیت) ” خذ من اموالھم صدقۃ “ (توبہ : 103) (ان کے اموال سے صدقہ لو) یہ تمام علماء کا قول ہے، امام ابو یوسف اور اسماعیل بن علیہ نے شاذ قول کیا ہے یہ دونوں حضرات کہتے ہیں : ہم نبی مکرم ﷺ کے بعد صلاۃ خوف نہیں پڑھیں گے (2) (زاد المسیر، جلد 1، صفحہ 110) کیونکہ خطاب خاص نبی مکرم ﷺ کے لیے ہے کیونکہ فرمایا (آیت) ” واذا کنت فیھم “۔ جب آپ ان میں نہ ہوں گے تو نماز بھی ان کے لیے نہ ہوگی، کیونکہ نبی مکرم ﷺ اس سلسلہ میں دوسروں لوگوں کی طرح نہیں ہیں، تمام لوگ پسند کرتے تھے کہ آپ کی اقتدا کریں اور آپ کے پیچھے نماز پڑھیں، اور آپ ﷺ کے بعد کسی کے لیے فضیلت میں اس مقام پر فائز ہونا ممکن نہیں، آپ ﷺ کے بعد لوگوں کے احوال برابر اور متقارب ہیں، اسی وجہ سے امام ایک فریق کو نماز پڑھائے گا اور دوسرے فریق کے لیے کسی دوسرے کو نماز پڑھانے کا حکم دے گا۔ رہا یہ کہ تمام ایک نماز کے پیچھے نمازیں پڑھیں یہ نہیں ہوگا۔ جمہور علماء نے کہا : ہمیں نبی مکرم ﷺ کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور ہمیں دوسری آیت اور حدیث میں آپ کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنۃ “۔ (النور : 63) اور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : صلوا کما رایتمونی اصلی “۔ (3) (صحیح بخاری، کتاب الادب، جلد 2، صفحہ 888) تم نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا پس آپ ﷺ کی اتباع مطلقا لازم ہے حتی کہ خصوص پر کوئی واضح دلیل دلالت کرے اگر معاملہ اس طرح ہوتا جو انہوں نے خصوص کی دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے تو پھر خطابات کا ان کے ساتھ خاص ہونا لازم ہوتا جن کی طرف خطابات متوجہ تھے، اس وقت شریعت کا ان کے ساتھ منحصرہونالازم ہوگا جن سے خطاب کیا گیا۔ پھر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اس نماز میں خصوص کے تو ہم کو ترک کیا اور انہوں نے غیر نبی مکرم ﷺ کے لیے بھی اس کو جائز قرار دیا جب کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین حرام اور حلال کو زیادہ جاننے والے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا فاعرض عنھم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ “۔ (الانعام : 68) اور جب تو دیکھے ان لوگوں کو جو پڑتے ہیں ہماری آیتوں میں تو ان سے اعراض کرلے حتی کہ وہ کسی دوسری بات میں پڑیں۔ یہ خطاب بھی رسول اللہ ﷺ کو ہے اور آپ کی امت بھی اس میں داخل ہے، اس کی بہت سی مثالیں ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” خذ من اموالھم صدقۃ “۔ (توبہ : 103) یہ تمام ان احکام کو آپ کے ساتھ خاص کرنے کا موجب نہیں بلکہ بعد والے بھی آپ کے قائم مقام ہیں۔ اسی طرح۔ (آیت) ” واذا کنت فیھم “۔ میں ہے، کہ آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا حضرت ابوبکر صدیق ؓ صحابہ کی جماعت میں تھے انہوں نے جنگ کی ان لوگوں سے جنہوں زکوۃ میں تاویل کی جس طرح صلاۃ خوف میں تم نے تاویل کی۔ ابو عمر نے کہا : زکوۃ لینے جس طرح نبی مکرم ﷺ اور بعد والے خلفاء برابر تھے نبی مکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے والے اور دوسروں کے پیچھے نماز والے کی نماز میں مشابہت نہیں ہے، کیونکہ زکوۃ لینے کا فائدہ مساکین کو فائدہ پہنچانا ہے اس میں عطا کرنے والے کو اس طرح فضیلت نہیں جس طرح آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے والے کو فضیلت ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فلتقم طائفۃ منھم معک “۔ یعنی ایک گروہ آپ کے ساتھ نماز میں کھڑا ہو، (آیت) ” والیاخذوا اسلحتھم “۔ یعنی جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی ہے، اور کہا جاتا ہے : (آیت) ” والیاخذوا اسلحتھم “۔ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دشمن کے مقابلہ میں ہیں وہ ہتھیار اٹھائیں، اس کا بیان آگے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر طائفہ کے لیے صرف ایک رکعت کا ذکر کیا ہے لیکن احادیث میں ہے کہ انہوں نے اس کے ساتھ دوسری رکعت ملائی، جیسا کہ آگے آئے گا۔ (آیت) ” فلتقم “۔ اور (آیت) ” فلیکونو “۔ کے قول سے کسرہ کو اس کے ثقل کی وجہ سے حذف کیا گیا ہے، اخفش، فراء اور کسائی نے حکایت کیا ہے کہ لام امر، لام حجود کو فتہ دیا جاتا ہے، سیبویہ علت موجبۃ کی وجہ سے اس سے منع کرتے ہیں اور وہ علت لام جر اور لام تاکید کے درمیان فرق ہے اس امر سے مراد تقسیم ہونا ہے یعنی تمام کا دشمن کے سامنے ہونا ہے کہ ان کے حملہ سے بچا جائے۔ نماز خوف کی ہئیت میں روایات مختلف ہیں۔ روایات کے اختلاف کی وجہ سے علماء کی مذاہب میں بھی اختلاف ہے ابن القصاء نے ذکر کیا ہے کہ آپ ﷺ نے چودہ مقامات پر صلاۃ خوف پڑھی، ابن عربی نے کہا : نبی مکرم ﷺ نے چوبیس مرتبہ صلاۃ خوف پڑھی (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ 491) امام احمد بن حنبل (رح) نے کہا : جو اہل حدیث کے امام ہیں اور حدیث میں نقل کی علل کی معرفت میں متقدم ہیں، میں نہیں جانتا کہ صلاۃ خوف میں کوئی حدیث مروی ہے مگر وہ حدیث مروی ہے مگر وہ حدیث ثابت ہے، یہ تمام احادیث صحیح ثابت ہیں جس حدیث کی بنا پر کوئی صلاۃ خوف پڑھے گا اس کے لیے جائز ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اسی طرح ابو جعفر طبری نے کہا : امام مالک اور ان کے تمام اصحاب، سوائے اشہب، کا نظریہ صلاۃ خوف میں سہل بن ابی حثمہ کی حدیث کے مطابق ہے۔ وہ حدیث امام مالک (رح) نے موطا میں یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے، انہوں نے صالح بن خوات انصاری سے روایت کی ہے، کہ سہل بن ابی حثمہ نے انہیں بیان کیا کہ صلاۃ خوف میں امام کھڑا ہو اور اس کے ساتھ اس کے ساتھیوں میں سے ایک گروہ کھڑا ہو اور ایک گروہ دشمن کے سامنے ہو۔ امام اس گروہ کو ایک رکعت پڑھائے اور سجدہ کرائے جو اس کے ساتھ ہیں پھر امام کھڑا ہو جب امام سیدھا کھڑا ہوجائے تو ٹھہر جائے اور باقی رکعت مقتدی خود مکمل کریں پھر وہ سلام پھیر دیں پھر وہ چلے جائیں اور امام کھڑا رہے اب یہ گروہ جو نماز پڑھ چکا ہے دشمن کے سامنے چلا جائے پھر وہ آجائیں جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی وہ امام کے پیچھے تکبیر کہیں، امام انہیں ایک رکعت پڑھائے، سجدہ کرے پھر سلام پھیر دے وہ کھڑے ہوجائیں اور دوسری رکعت پڑھ کر سلام پھیردیں۔ ابن القاسم جو امام مالک (رح) کے شاگرد ہیں انہوں نے کہا : امام مالک کے نزدیک عمل قاسم بن محمد عن صالح بن خوات کی حدیث کے مطابق ہے، ابن القاسم نے کہا : وہ یزید بن رومان کی حدیث پر عمل کرتے تھے پھر انہوں نے اس سے رجوع کرلیا، ابوعمر ؓ نے کہا : قاسم کی حدیث اور یزید بن رومان کی حدیث دونوں صالح بن خوات سے مروی ہیں مگر ان کے درمیان سلام میں فرق ہے، قاسم کی حدیث میں ہے کہ امام دوسرے طائفہ کو سلام پھیرائے پھر وہ کھڑے ہوں اور خود اپنی رکعت کو قضا کریں اور یزید بن رومان کی حدیث میں ہے کہ وہ انتظار کرے اور انہیں سلام پھیرائے۔ امام شافعی (رح) نے بھی یہی کہا ہے اور اسی کی طرف امام شافعی کا رجحان ہے۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا : یزید بن رومان کی حدیث صالح بن خوات سے جو مروی ہے وہ صلاۃ خوف میں مروی احادیث میں سے کتاب اللہ کے ظاہر کے زیادہ مشابہ ہے اور میں بھی کہتا ہوں : امام مالک رحمۃ اللہ علیہنے قاسم کی حدیث کی اختیار کرنے کی حجت تمام نمازوں پر قیاس کو بنایا ہے، کیونکہ تمام نمازوں میں امام کسی کا انتظار نہیں کرتا جو پہلے گزر چکا ہوتا ہے۔ اور سنت جس پر اجماع ہے وہ یہ ہے کہ مقتدی امام کے سلام کے بعد اپنی بقیہ نماز کی قضا کریں گے، ابو ثور کا قول اس مسئلہ میں امام مالک (رح) کے قول کی طرح ہے اور امام احمد (رح) نے امام شافعی (رح) کے قول کی طرح کہا جو ان کا مختار قول ہے وہ کسی پر عیب نہیں لگاتے تھے، جو صلاۃ خوف کے متعلق کسی بھی طریقہ پر عمل کرلیتا تھا، اصحاب مالک میں سے اشہب کا اختیار حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ ﷺ نے ایک گروہ کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسرا طائفہ دشمن کے سامنے تھا پھر وہ واپس آئے وہ اپنے ساتھیوں کی جگہ دشمن کے سامنے آئے اور وہ لوگ آئے جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی پھر انہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت پڑھائی، پھر نبی مکرم ﷺ نے سلام پھیر دیا پھر ہر ایک گروہ نے اپنی اپنی رکعت خود ادا کی (1) (صحیح بخاری، کتاب المغازی، جلد 2، صفحہ 592) حضرت ابن عمر ؓ نے کہا : جب خوف اس سے زیادہ ہو تو سوارہو کر یا کھڑے ہو کر اشارہ سے نماز پڑھیں، یہ امام بخاری، امام مسلم، امام مالک (رح) وغیرہم نے تخریج کیا ہے، اس طریقہ کو اوزاعی نے اختیار کیا۔ اس کو ابو عمر بن عبد البر نے پسند کیا ہے فرمایا : یہ سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے اور یہ اہل مدینہ کے نقل کے ساتھ وارد ہے اور ان کے مخالف پر حجت قائم ہے، کیونکہ اصول کے زیادہ مشابہ ہے، کیونکہ پہلا اور دوسرا گروہ انہوں نے اپنی رکعت کو نبی مکرم ﷺ کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد قضا کیا اور متفق علیہ سنت سے معروف ہے بقیہ تمام نمازوں میں، رہے کوفی علماء امام ابوحنیفہ (رح) اور انکے اصحاب سوائے امام ابو یوسف کے، ان کا نظریہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث کے مطابق ہے، اس حدیث کو ابو داؤد اور دارقطنی نے ذکر کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے نماز خوف پڑھائی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے دو صفیں بنائیں ایک صف نبی مکرم ﷺ کے پیچھے تھی اور دوسری دشمن کے سامنے تھی نبی مکرم ﷺ نے اس گروہ کو ایک رکعت پڑھائی اور پھر دوسرا گروہ آیا اور پہلے ساتھیوں کی جگہ کھڑے ہوئے اور پہلا گروہ دشمن کے سامنے چلا گیا انہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت پڑھائی پھر سلام پھیر دیا پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور ایک رکعت خود پڑھی پھر سلام پھیر دیا وہ چلے گئے، اور ان ساتھیوں کی جگہ کھڑے ہوئے جو دشمن کے سامنے تھے وہ پہلا گروہ ان کی جگہ آیا اور اپنی ایک رکعت پڑھی اور سلام پھیر دیا (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 176) یہ طریقہ اور پہلا طریقہ حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث میں ہے مگر ان کے درمیان فرق ہے وہ یہ ہے حضرت ابن عمر کی حدیث میں ان کی قضا ایک حالت میں ظاہر ہوتی ہے اور امام اکیلا نگران کی طرح باقی رہتا ہے اور یہاں ان کی قضا ان کی نماز کی صفت پر متفرق ہے، بعض علماء نے حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث کی حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث میں مروی طریقہ پر تاویل کی ہے حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث پر۔ ثوری، اشہب بن عبدالعزیز کا مسلک قائم ہے جیسا کہ ابو الحسن لخمی نے ان سے روایت کیا ہے اور پہلا قول ابو عمر، ابن یونس اور ابن حبیب نے ان سے روایت کیا ہے، ابو داؤد نے حضرت حذیفہ، حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے ہر طائفہ کی ایک رکعت پڑھائی اور انہوں نے قضا نہیں کی (2) (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 177) یہ حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث کا مقتضی ہے کہ صلاۃ خوف میں ایک رکعت ہے، یہ اسحاق کا قول ہے، سورة بقرہ میں اس کی طرف اشارہ ہوچکا ہے، نماز اس کے مطابق اولی ہے جس میں احتیاط ہو اور حضرت ابن عباس ؓ ؓ کی حدیث سے حجت قائم نہیں ہوتی اور حدیث حذیفہ وغیرہ کی حدیث میں لم یقضوا “ اس پر محمول ہوگی کہ جن لوگوں نے روایت کیا ان کے علم میں ہے کہ انہوں نے بقیہ رکعت ادا نہیں کی، کیونکہ روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے اس نماز میں ایک رکعت بعد میں ادا کی اور جنہوں نے زیادتی کی شہادت دی وہ اولی ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ ” لم یقضوا “ سے مراد یہ ہو کہ انہوں نے قضا نہ کی جب وہ امن میں ہوئے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ خوف زدہ کو جب امن ہوجائے تو خوف کی نمازیں جو وہ پہلے ادا کرچکا ہے ان کی قضا نہیں کرے گا، یہ تمام اقوال ابوعمر ؓ نے ذکر کیے ہیں صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے ایک طائفہ کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر وہ پیچھے چلے گئے اور پھر دوسرے طائفہ کو دو رکعتیں پڑھائیں فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے لیے چار رکعتیں تھیں اور مقتدیوں کے لیے دو دو رکعتیں تھیں، اس حدیث کو ابو داؤ داور دارقطنی نے حسن عن ابی بکرہ کی حدیث سے تخریج کیا ہے انہوں نے بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ نے ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرا (3) (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 177) اس حدیث کو دارقطنی نے حسن عن جابر کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیرا پھر دوسرے گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیرا۔ ابو داؤد نے کہا : حضرت حسن اس کے ساتھ فتوی دیتے تھے، امام شافعی (رح) سے بھی یہ مروی ہے، اس سے ان علماء نے حجت پکڑی ہے جو نماز میں امام اور مقتدی کی نیت کے اختلاف کو جائز قرار دیتے ہیں، یہ امام شافعی (رح) اوزاعی، ابن عطیہ، امام احمد بن حنبل اور داؤد رحمۃ اللہ علیہم کا مذہب ہے، انہوں نے حضرت جابر کی حدیث سے تائید حاصل کی ہے کہ حضرت معاذ نبی مکرم ﷺ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھتے تھے پھر اپنی قوم کے پاس آتے تھے اور اپنی قوم کی امامت کراتے تھے۔ (الحدیث) امام طحاوی نے فرمایا : یہ ابتداء اسلام میں تھا، کیونکہ ابتدائے اسلام میں ایک فریضہ دو مرتبہ ادا کرنا جائز تھا پھر یہ منسوخ ہوگیا۔ واللہ اعلم۔ یہ صلاۃ خوف کے بارے علماء کے اقوال ہیں۔ مسئلہ نمبر : (3) یہ نماز ہے جس کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے اس کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ مسلمانوں کی قبلہ کی طرف پیٹھ اور دشمن کا قبلہ کی طرف منہ ہو۔ ذات الرقاع میں ایسا اتفاق ہوا تھا، عسفان اور دوسری جگہوں پر مسلمانوں کا رخ قبلہ کی جانب تھا اور جو ہم نے خالد بن ولید کے قصہ میں نزول کا سبب ذکر کیا ہے وہ قوم کو دو حصوں میں تفریق کرنے کے مناسب نہیں کیونکہ (آیت) ” فاقمت لھم الصلوۃ “۔ کے قول کے بعد حدیث میں فرمایا : نماز کا وقت ہوا تو نبی مکرم ﷺ نے صحابہ کو ہتھیار اٹھانے کا حکم دیا اور ہم نے آپ ﷺ کے پیچھے دو صفیں بنائیں، پھر آپ نے رکوع کیا تو ہم تمام نے رکوع کیا۔ فرمایا : پھر آپ نے سر اٹھایا تو ہم نے بھی سر اٹھایا، فرمایا پھر نبی مکرم ﷺ نے اسی صف کے ساتھ کیا جو آپ سے متصل تھی اور دوسرے نگرانی کرتے ہوئے کھڑے رہے پھر وہ بیٹھے سجدہ کیا اور آپ ﷺ نے ان پر سلام کیا (1) (سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ جلد 1، صفحہ 177) ۔ فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے دو مرتبہ صلاۃ خوف پڑھی ایک مرتبہ غسفان میں ایک مرتبہ بنی سلیم کی زمین میں اس کو ابو داؤد نے ابو عیاش زرتی کی حدیث سے تخریج کیا ہے، یہ ثوری کا قول ہے اور زیادہ احتیاط پر مبنی ہے۔ ابو عیسیٰ نے ترمذی میں یہ طریقہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ضجنان اور عسفان کے درمیان اترے اس حدیث میں ہے نبی مکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ہر گروہ کو ایک رکعت پڑھائی اور ہر طائفہ کے لیے ایک ایک رکعت تھی اور نبی مکرم ﷺ کے لیے دو رکعتیں تھیں، امام ترمذی (رح) نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابن عباس، حضرت جابر، حضرت ابو عیاش زرقی، رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین انکا نام زید بن صامت ہے، حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت حذیفہ، حضرت ابوبکر اور حضرت سہل بن حثمہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بھی مروی ہے۔ میں کہتا ہوں : ان روایات کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے، شاید نبی مکرم ﷺ نے ان کو اکٹھی نماز پڑھائی ہو جس طرح حضرت ابو عیاش کی حدیث میں ہے اور ان کو دوسری نماز پڑھائی ہو جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں آیا ہے اس میں اس شخص کے لیے حجت ہے جو کہتے ہیں نماز خوف ایک رکعت ہے، خطابی نے کہا : صلاۃ خوف کی کئی صورتیں ہیں نبی مکرم ﷺ نے مختلف ایام میں مختلف اشکال میں ادا فرمائی آپ نے ہراس طریقہ کو اختیار فرمایا جس میں نماز کے لیے احتیاط بھی تھی اور حراست و حفاظت کے لیے بھی زیادہ بلیغ تھا۔ مسئلہ نمبر : (4) مغرب کی نماز کی کیفیت میں اختلاف ہے، دارقطنی نے حسن عن ابی بکرہ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے ایک قوم کو مغرب کی تین رکعتیں پڑھائیں، پھر وہ چلے گئے اور دوسرے لوگ آئے انہیں بھی آپ ﷺ نے مغرب کی تین رکعتیں پڑھائیں، پس نبی مکرم ﷺ کے چھ رکعت ہوئیں اور مقتدیوں کیلئے تین تین رکعتیں ہوئیں (2) (المستدر للحاکم، صلوۃ الخوف جلد 1، صفحہ 486، حدیث نمبر 1251) حسن کا یہی قول ہے، جمہور علماء صلاۃ مغرب میں اس نظریہ سے اختلاف رکھتے ہیں، یہ کہتے ہیں : وہ پہلے طائفہ کو دو رکعتیں پڑھائے اور دوسرے طائفہ کو ایک رکعت پڑھائے۔ پھر اس میں علماء کے اصول کے اختلاف کی بنا پر بقیہ نماز کب قضا کی جائے گی ؟ کیا سلام سے پہلے یاسلام کے بعد ؟ یہ امام مالک (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) کا نظریہ ہے، کیونکہ اس میں نماز کی ہیئت کی زیادہ حفاظت ہے۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا : پہلے گروہ کو ایک رکعت پڑھائے، کیونکہ حضرت علیٰ ؓ نے جنگ صفین میں ایسا ہی کیا تھا (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ 494) واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (5) سخت جنگ اور شدت قتال اور وقت کے خروج کے خوف میں نماز خوف ادا کرنے میں اختلاف ہے، امام مالک، ثوری، ازواعی، امام شافعی، رحمۃ اللہ علیہم اور عام فقہاء فرماتے ہیں : جیسے ممکن ہو نماز ادا کرے، کیونکہ حضرت عمر کا قول ہے : اگر خوف اس سے زیادہ ہو تو سوار ہو کر یا کھڑے ہو کر اشارہ سے نماز پڑھے، موطا میں ہے خواہ قبلہ کی طرف منہ ہو یا نہ ہو۔ سورة بقرہ میں ضحاک اور اسحاق کا قول گزر چکا ہے۔ اوزاعی نے کہا : اگر فتح تیار ہو اور وہ نماز پر قادر نہ ہوں تو ہر شخص خود اشارہ سے نماز پڑھے اور اگر اشارہ سے بھی ادا کرنے پر قادر نہ ہوں تو نماز کو موخر کردیں حتی کہ جنگ ختم ہوجائے اور امن میں جائیں تو دو رکھتیں ادا کریں، اگر وہ قادر نہ ہوں تو ایک رکوع اور دو سجدے ادا کریں اگر اس پر بھی قادر نہ ہوں تو ان کے لیے تکبیر کافی دو رکعتیں ادا کریں، اگر وہ قادر نہ ہوں تو ایک رکوع اور دو سجدے ادا کریں اگر اس پر بھی قادر نہ ہوں تو ان کے لیے تکبیر کافی ہوگی وہ نماز کو مؤخر کریں حتی کہ امن میں ہوجائیں، یہی مکحول کا قول ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ الکیاطبری نے ” احکام القرآن “ میں امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب سے حکایت کیا ہے۔ ال کیا نے کہا : جب خوف اس سے زیادہ ہو اور جنگ اپنے عروج پر ہو تو مسلمان قبلہ یا غیر قبلہ کی طرف جیسا بھی ممکن ہو نماز پڑھیں، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب ثلاثہ اس پر متفق ہیں کہ وہ نماز نہ پڑھیں جب کہ یہ حالت ہو بلکہ نماز مؤخر کردیں، اگر وہ نماز کے اندر جنگ لڑیں گے تو انکی نماز فاسد ہوجائے گی، امام شافعی (رح) سے حکایت کیا گیا ہے طعن اور ضرب پے درپے لگائی تو نماز فاسد ہوجائے گی، میں کہتا ہوں : یہ قول حضرت انس ؓ کے قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے، انہوں نے فرمایا : تستر قلعہ کی فتح فجر کی روشنی کے وقت ہوئی سخت جنگ ہوئی تو ہم نماز نہ پڑھ سکے مگر سورج بلند ہونے کے بعد ہم نے نماز پڑھی جب کہ حضرت ابو موسیٰ کے ساتھ تھے اور ہمیں فتح حاصل ہوچکی تھی، حضرت انس ؓ نے کہا : مجھے اس نماز کے عوض دنیا ومافیہا محبوب نہیں۔ یہ حدیث بخاری نے روایت کی ہے، اس کی طرف ہمارے شیخ الاستاد ابو بن محمد بن القیسی القرطبی المعروف بابی حجۃ کا میلان ہے، یہی ظاہر امام بخاری (رح) کا مختار ہے، کیونکہ انہوں نے اس کے پیچھے حدیث جابر کو ذکر کیا ہے فرمایا : جنگ خندق کے دن حضرت عمر ؓ آئے وہ کفار قریش کو گالی دے رہے تھے اور عرض کر رہے تھے : یا رسول اللہ ! میں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی حتی کہ سورج غروب ہونے کے قریب پہنچ گیا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں نے بھی نماز نہیں پڑھی فرمایا پھر رسول اللہ ﷺ بطحان وادی میں اترے، وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد نماز عصر پڑھی پھر اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔ (2) (صحیح بخاری، مواقیت الصلوۃ جلد 1، صفحہ 83) مسئلہ نمبر : (6) حملہ آور اور جس کا پیچھا کیا گیا ہے اس کی نماز میں بھی اختلاف ہے، امام مالک (رح) اور ان کے ساتھیوں کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ دونوں برابر ہیں، ہر ایک اپنی سواری پر نماز پڑھے گا۔ اوزاعی، امام شافعی، اور فقہاء اصحاب الحدیث اور ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہم نے کہا : پیچھا کرنے والا (حملہ آور) زمین پر نماز پڑھے یہ صحیح ہے، کیونکہ پیچھا کرنا نفل ہے اور فرض نماز کا زمین پر ادا کرنا فرض ہے جہاں ممکن ہو اور سوار سواری پر نماز نہ پڑھے مگر جب اسے شدید خوف ہو، جب کہ پیچھا کرنے والا ایسا نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) چھاونی میں لشکر موجود تھا انہوں نے ایک تاریکی دیکھی انہوں نے اسے دشمن گمان کیا انہوں نے صلاۃ خوف پڑھ لی پھر ظاہر ہوا کہ وہ کوئی دشمن نہیں ہے، ہمارے علماء کی ایسی صورت میں دو روایتیں ہیں ایک یہ کہ وہ نماز کا اعادہ کریں، یہی امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے، دوسری یہ کہ ان پر اعادہ نہیں ہے یہ امام شافعی کا اظہرقول ہے، دوسرے قول کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا تو ان کے لیے یہ جائز تھا جیسا کہ اگر قبلہ کی سمت میں خطا کر بیٹھیں اور نماز پڑھ لیں تو ان پر اعادہ نہیں ہوتا، یہ اولی ہے، کیونکہ انہوں نے وہی کچھ کیا جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ وقت کے اندر لوٹائیں اور اگر وقت نکل چکا ہو تو نہ لوٹائیں۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (8) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولیاخذوا اسلحتھم “۔ اور فرمایا (آیت) ” ولیاخذوا حذرھم واسلحتھم “۔ یہ احتیاط اور ہتھیار اٹھانے کی صفتیں ہیں تاکہ دشمن اپنی آرزو پوری نہ کرلے اور فرصت کو نہ پائے، السلاح اس چیز کو کہتے ہیں جس سے انسان جنگ میں اپنا دفاع کرتا ہے۔ عنترہ نے کہا : کسوت الجعد جعد بنی ابان سلاحی بعد عری وافتضاح : کہتا ہے : میں نے اسے اپنے ہتھیار دیئے تاکہ ان کے ساتھ وہ اپنی حفاظت کرے اور اس کے بعد کہ وہ ہتھیاروں سے خالی ہوچکا تھا، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : (آیت) ” ولیاخذوا اسلحتھم “۔ یعنی وہ طائفہ ہتھیار اٹھائے جو دشمن کے سامنے ہے، کیونکہ نماز پڑھنے والا طائفہ جنگ نہیں کر رہا۔ حضرت ابن عباس ؓ کے علاوہ علماء نے کہا : نماز پڑھنے والا طائفہ ہتھیار اٹھائے، یعنی جو پہلے نماز پڑھنے والے ہیں وہ اپنے ہتھیار اٹھائیں یہ نحاس نے ذکر کیا ہے اس نے کہا : یہ احتمال ہے کہ وہ گروہ جس کو نماز میں ہتھیار اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے یعنی ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور انہیں اپنے ہتھیار لینے چاہئیں، کیونکہ اسے دشمن کا زیادہ خوف ہے، نحاس نے کہا : یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حکم تمام کے لیے ہو، کیونکہ اس میں دشمن کے لیے ہیبت ہوگی اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ حکم صرف اس گروہ کو ہو جو دشمن کے سامن ہے ابو عمر نے کہا : اکثر اہل علم اس نماز کے لیے ہتھیار اٹھانا مستحب قرار دیتے ہیں جو خوف میں نماز پڑھ رہا ہو۔ اور کہ (آیت) ” ولیاخذوا اسلحتھم “۔ کے قول کو ندب پر محمول کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے کہ خوف نہ ہوتا تو اس کا اٹھانا واجب نہ ہوتا پس اس کا امر استحبابی ہے، اہل ظاہر نے کہا : نماز خوف میں ہتھیار اٹھانا واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے مگر جسے بارش وغیرہ کی وجہ سے اذیت ہو تو اس کے لیے واجب نہیں، اگر بارش وغیرہ ہو تو اس کے لیے ہتھیاراتارنا جائز ہے، ابن عربی نے کہا : جب وہ نماز پڑھیں تو خوف کے وقت اپنے ہتھیار اٹھائیں، یہی امام شافعی (رح) کا قول ہے، اور یہ قرآن کی نص ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : وہ ہتھیار نہ اٹھائیں، کیونکہ اگر ان پر ہتھیار اٹھانا واجب ہوتا تو ہتھیار نہ اٹھانے کی صورت میں نماز باطل ہوتی۔ ہم کہتے ہیں نماز کی وجہ سے ہتھیار اٹھانا واجب نہیں بلکہ ان پر قوت ونظر کی خاطر ہتھیار اٹھانا واجب ہے۔ (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ 494) (یعنی کفار کے سامنے قوت و طاقت کا مظاہرہ ہو) مسئلہ نمبر : (9) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فاذا سجدوا “۔ اس میں ضمیر اس گروہ کے لیے ہے جو نماز پڑھ رہا ہے پھر وہ لوٹ جائیں، یہ بعض مروی ہیئات پر ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے جب وہ قضا رکعت کا سجدہ کرلیں اور یہ حضرت سہل بن ابی حثمہ کی ہیئت پر ہے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ نماز کو کبھی سجدہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہ نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد کی طرح ہے۔ اذا دخل احدکم المسجد فلیسجد سجدتین “۔ (2) (صحیح بخاری کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 63) یعنی جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت نماز پڑھے، یہ سنت ہے۔ اور (آیت) ” فلیکونوا “۔ میں ضمیر احتمال رکھتی ہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے ہو جنہوں نے سجدہ کیا اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ اس طائفہ کے لیے ہو جو پہلے دشمن کے مقابلہ میں کھڑا تھا۔ مسئلہ نمبر : (10) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ودا لذین کفرو “۔ کافر خواہش کرتے ہیں کہ تم ہتھیار اٹھانے سے غافل ہوجاؤ تاکہ وہ اپنے مقصود تک پہنچ جائیں، اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ہتھیار اٹھانے کے امر میں حکمت بیان فرمائی اور دوسرے طائفہ میں احتیاط کا ذکر فرمایا جب کہ پہلے کے ساتھ یہ ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ دوسرا ہوشیار رہنے اور احتیاط کرنے کا زیادہ مستحق ہے، کیونکہ دشمن اپنا قصد اس وقت سے مؤخر نہیں کرے گا، کیونکہ یہ نماز کا آخر ہے نیز دشمن کہے گا کہ ہتھیار ان بھاری ہوں اور وہ تھک چکے ہوں گے، اس آیت میں اسباب کو اختیار کرنے کی بہت واضح دلیل موجود ہے اور ہر اس چیز کو اختیار کرنے کی دلیل ہے، جو صاحب عقل لوگوں کو نجات دینے والی ہے اور سلامتی تک پہنچانے والی ہے اور دار کرامت تک وصال بخشنے والی ہے۔ (آیت) ” میلۃ واحدۃ “۔ یعنی ایسا حملہ جو جڑ سے اکھیڑ دے اور اس کے ساتھ دوسرے حملہ کی ضرورت بھی نہ رہے۔ مسئلہ نمبر : (11) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا جناح علیکم ان کان بکم اذی من مطر “۔ نماز میں ہتھیار اٹھانے کے وجوب میں علماء کا اختلاف ہے ہم نے پہلے اس کی طرف اشارہ کیا ہے، اگر واجب نہیں تو احتیاط کے لیے مستحب ہے پھر بارش میں ہتھیار رکھنے کی رخصت دی، کیونکہ اس طرح اندرونی ہتھیار گیلے اور بھاری ہوجائیں گے اور لوہے کو زنگ آلود کر دے گی، بعض علماء نے فرمایا : نخلہ وادی کے بطن میں نبی مکرم ﷺ موجود تھے، جب مشرکوں کو شکست ہوئی اور مسلمانوں کو مال غنیمت ملا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، وہ بارش والا دن تھا، اور نبی مکرم ﷺ ہتھیار اتار کر قضا حاجت کے لیے باہر نکل گئے تھے، کفار نے آپ ﷺ کو صحابہ سے جدا دیکھا تو غورث بن حارث نے آپ کا قصد کیا وہ اپنی تلوار کے ساتھ پہاڑ سے آپ کی طرف اترا اس نے آپ سے کہا : آج آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ “ دعا کی اللھم اکفنی الغورث بما شئت۔ غورث نے اپنی تلوار کو نبی مکرم ﷺ کی طرف جھکایا تاکہ آپ کو مارے تو وہ فورا پھسل کر منہ کے بل گر پڑا (دلائل النبوۃ للبہیقی، جلد 3، صفحہ 168) واقدی نے ذکر کیا ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) نے غورث کو سینے پر دھکا دیا جیسا کہ سورة مائدہ میں آئے گا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی نبی کریم ﷺ نے تلوار اٹھائی اور فرمایا : اے غورث، تجھے اب مجھ سے کون بچائے گا ؟ اس نے کہا : کوئی نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو میرے لیے حق کی گواہی دے تو میں تجھے اب مجھ سے کون بچائے گا ؟ اس نے کہا : کوئی نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو میرے لیے حق کی گواہی دے تو میں تجھے تیری تلوار دے دوں گا، غورث نے کہا : نہیں لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کے بعد آپ سے نہیں لڑوں گا اور نہ میں آپ کے خلاف کسی دشمن کی مدد کروں گا آپ ﷺ نے اسے تلوار دے دی اس وقت بارش میں ہتھیار اٹھانے کی رخصت میں یہ نازل ہوئی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ایک زخم کی وجہ سے بیمار ہوگئے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے، پس اللہ تعالیٰ نے ہتھیار ترک کرنے اور بارش کے عذر کی وجہ سے دشمن کے لیے تیاری چھوڑنے کی صحابہ کرام کو رخصت دی، پھر انہیں حکم دیا اور فرمایا : (آیت) ” وخذوا حذرکم “۔ یعنی ہوشیار رہو تم نے ہتھیار رکھ دیئے ہوں یا نہ رکھے ہوں، یہ تمام حالات میں دشمن سے ہوشیار رہنے اور تیاری کی تاکید پر دلیل ہے، کیونکہ لشکر کو ہمیشہ اسی صورت میں مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ ہوشیاری میں کوتاہی کرتے ہیں، ضحاک نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” خذوا حذرکم “۔ کے تحت فرمایا : یعنی اپنی تلواریں لٹکاؤ، کیونکہ یہ جنگ کی ہیئت ہے۔
Top