Al-Qurtubi - Al-Hashr : 5
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
(مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا انکو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا اور مقصود یہ تھا کہ نافرمانوں کو رسوا کرے۔
آیات۔ 5۔ اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ ماقطعتم من لینۃ، ما محل نصب میں ہے اس کو قطعتم نصب دے رہا ہے (1) گویا فرمایا : تم نے کس چیز کاٹا ؟ اس کی وجہ یہ نبی جب نبی کریم ﷺ نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا۔ وہ بویرہ تھے یہ اس وقت ہوا جب انہوں نے حضور ﷺ کے خلاف غزوہ احد کے موقع پر قریش کی مدد ی۔ آپ نے ان کے کھجوروں کے درخت کاٹنے اور انہیں جلانے کا حکم دیا۔ علماء نے اس کی تعداد میں اختلاف کیا ہے۔ قتادہ اور ضحاک نے کہا : صحابہ نے ان کے چھ کھجوروں کے درختوں کو کاٹا اور انہیں جلایا۔ محمد بن اسحاق نے کہا : صحابہ نے ایک درکت کو کاٹا اور اسے جلایا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے منع نہ کرنے کی وجہ سے تھا یا حضور ﷺ نے اس کا حکم دیا تھا۔ مقصود یا تو انہیں کمزور کرنا تھا یا ان درختوں کو کاٹ کر جگہ کو کھلا کرنا تھا۔ یہ امر یہودیوں کیلئے بڑا تکلیف دہ ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا : اے محمد ! ﷺ کیا تم یہ گمان نہیں کرتے کہ تم نبی ہو اور اصلاح چاہتے ہو، کیا یہ کھجوروں کے درختوں کا کاتنا اور درختوں کو جلانا اصلاح احوال میں سے ہے ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے جو آپ پر نازل کیا ہے اس میں زمین میں فساد برپا کرنا مباح ہے ؟ یہ بات حضور ﷺ کے لئے بڑی تکلیف دہ ہوئی اور مومنوں نے بھی اپنے دلوں میں ایس ہی بات پائی اور انہوں نے آپس میں اختلاف رائے کا اظہار کیا۔ بعض نے کہا : اللہ تعالیٰ نیج تمہیں مال عطا کیا ہے اسے نہ کاٹو۔ بعض نے کہا : ان درختوں کو کاٹ دو تاکہ ہم ان کو غضب ناک کریں۔ یہ آیت اس لئے نازل ہوئی تاکہ جنہوں نے درخت کاٹنے سے منع کیا تھا ان کی تصدیق کی جائے اور جنہوں نے انہیں کاٹا تھا ان سے گناہ کو ختم کرنے کا اعلان ہو۔ اور اس امر کی خبر دی کہ انہیں کاٹنا اور ان کا ترک کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے۔ ان کے شاعر سماک یہودی نے اسے بارے میں یہ اشعار کہے تھے۔ الئنا ورثنا الکتاب الحکیم علی عھد موسیٰ ولم نصدف کیا ہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں کتاب حکیم کے وارث نہیں بنے اور ہم نہیں پھرے۔ وائتم رعاء لشاء عجاف بسھل تھا مۃ والاخیف تم تہامہ اور اخیف کے میدانی علاقہ میں دہلی بکریاں چرانے والے ہو۔ تم ہلاک کرنے والے زمانہ میں بکریاں چرانے کو اپنے لئے بزرگی خیال کرتے ہو۔ فیا ایھا الشاھدون انتھوا عن الظلم و المنطق المونف اے حاضرین ! اس ظلم اور ترش گفتگو سے رک جائو۔ لعل اللیالی و صرف الدھور یدلن من العادل المنصف ممکن ہے یہ مصائب اور حادثات زمانہ حکومت ایک عادل منصف کو دے دیں۔ بقتل النضیر و اجلاء ھا و عقر النخیل و لم تقصف جو بنو نضیر کو قتل کیا گیا، انہیں جلا وطن کیا گیا اور کھجور کے ان درختوں کو کاٹ دیا گیا جن کا پھل ابھی کاٹا بھی نہیں گیا تھا۔ حضرت حسان بن ثابت ؓ انہیں یہ جواب دیا (1): تفاقد معشر نصروا قریشا ولیس لھم ببلدتھم نصیر ایک جماعت نے قریش سے معاہدہ کیا کہ وہ ان کے حلیف ہیں جبکہ ان کے شہر میں ان کا کوئی مددگار نہ تھا۔ ھموا اوتوا اللکتاب فضیعوہ دھم عمی عن التوراۃ بود تم ہی وہ لوگ ہو جنہیں کتاب دی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کردیا تو وہ تورات سے اندھے اور ہلاک ہونے والے ہیں۔ کفرتم بقرآن ان وقد ابیتھم بتصدیق الذی قال المنذیر تم نے قرآن کا انکار کیا اور نذیر نے جو ہا اس کی تصدیق کرنے سے بھی تم نے انکار کردیا۔ وھان عیل سراۃ بنی لوی حریق بالبویرۃ مستطیر بویرہ میں بنی لوئی کے سرداروں پر پھیلنے والی آگ آسان ہوگئی۔ حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب نے اسے یہ جواب دیا تھا : ادام اللہ ذلک صنیع و حرق فی نواحیھا السعیر اللہ تعالیٰ اس عمل کو دوام بخشے اور ان کی اطراف میں آگ خوب بھڑکائے۔ فلو کان النخیل بھا رکابا لقالوا لامقام لکم فسیروا اگر کھجوروں کے درخت وہاں اونٹ ہوتے تو وہ بھی کہتے اب تمہارے ٹھہرنے کا وقت ختم ہوگیا پس چلو۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ نبی کریم ﷺ ان پر حملہ آور ہونے کے لئے 4 ھ ربیع الاول میں نکلے تھے آپ ﷺ سے بچنے کے لئے قلعہ بند ہوگئے تھے رسول اللہ ﷺ نے کھجوروں کے درخت کاتنے اور انہیں جلانے کا حکم دیا اسی موقع پر شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوا۔ عبد اللہ بنی ابی بن سلول اور اس کے منافق ساتھیوں نے بنی نضیر کی طرف خفیہ پیغام بھیجا : ہم تمہارے ساتھ ہیں اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہارے ساتھ ہو کر جنگ کریں گے اگر تمہیں جلا وطن کیا گیا تو ہم تمہارے ساتھ جلا وطن ہوجائیں گے۔ اس وجہ سے بنو نضیر دھوکہ میں مبتلا ہوگئے۔ جب اصل صورتحال سامنے آئی تو منافقین نے یہودیوں کو بےیارو مددگار چھوڑ دیا۔ انہیں مسلمانوں کے حوالے کردیا اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ مطالبہ کیا کہ ان کو قتل نہ کریں اور انہیں جلا وطن کردیں اس شرط پر کہ ان کے لئے وہی کچھ ہوگا جو وہ اونٹوں پر لے جاسکتے ہیں مگر اسلحہ نہیں لے جاسکتے وہ اس طرح خیبر چلے گئے ان میں سے کچھ شام چلے گئے اس میں سے جو خیبر کی طرف گئے وہ ان کے اکابرین تھے جس طرح حی بن اخطب، سلام بن ابی الحقیق، کنانہ بن ربیع سارا خیبر ان کا مطیع ہوگیا۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ صحیح مسلم اور دوسری کتابوں میں حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کے کھجور کے درختوں کو کاٹنے کا حکم دیا اور انہیں جلایا اس بارے میں حضرت حسان ؓ نے کہا : وھان علی سراۃ بنی لولی حریق بالبویرۃ مستطیر بنو اوئی کے سرداروں پر بویرہ میں پھیلنے والی آگ آسان ہوئی۔ اس بارے میں ما قطعتم من لینۃ کے الفاط نازل ہوئے۔ علماء نے دشمنوں کے گھروں کو بےآباد کرنے، ان کو جلانے اور ان کے پھل کاتنے کے بارے میں اختلاف کیا ہے (1) یہ جائز ہے یہ مدد نہ میں کہا ہے (2) اگر مسلمانوں کو علم ہوجائے کہ یہ ان کے قبضہ میں آنے والے ہیں تو وہ ایسا نہ کریں۔ اگر وہ اس سے مایوس ہوجائیں تو ایسا کر گزریں ؛ یہ امام مالک نے ” واضحہ “ میں کہا ہے۔ اصحاب امام شافعی اسی کی موافقت کرتے ہیں۔ ابن عربی نے کہا : صحیح پہلا قول ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو علم تھا کہ یہ درخت آپ ﷺ کے لئے ہی ہیں لیکن حضور ﷺ نے انہیں کاٹنے اور جلانے کا حکم دیا تاکہ یہ ان کے مغلوب ہونے اور ان کی کمزوری کا باعث بنیں یہاں تک کہ وہ یہاں سے نکل جائیں۔ بعض مال کو ضائع کرنا تاکہ باقی مال محفوظ رہے یہ ایسی مصلحت ہے جو شرعا جائز اور عقلا مقصود ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ مادردی نے کہا : اس آیت میں یہ دلیل موجود ہے کہ ہر مجہتد صحیح نتیجہ تک پہنچنے والا ہوتا ہے۔ النیا طبری نے کہا : اگرچہ حضور ﷺ کی موجودگی میں اجہتاد بعید از حقیقت ہے تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سب کچھ دیکھا اور خاموشی اختیار فرمائی۔ صحابہ نے اسی خاموشی سے جواز کا حکم اخذ کیا۔ ابن عربی نے کہا : یہ باطل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ تھے اور حضور ﷺ کی موجودگی میں کوئی اجتہاد نہیں یہ نبی کریم ﷺ کے ایسے امور میں اجتہاد پر دال ہے جن میں کوئی وحی نازل نہ ہوئی ہو۔ یہ حکم ان آیات سے اخذ کیا جن میں کفار کو اذیت دینے کا ذکر ہے اور ان کے بارے میں جڑ سے اکھیڑنے اور ہلاکت کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس اجازت میں یہ بھی داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : لیخزی الفقین۔ میں یہی مقصود ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ اللینۃ کی تعبیر میں اختلاف کیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں دس اقوال ہیں۔ ا۔ عجوہ کے علاوہ تمام قسم کے کھجور کے درخت، یہ قول امام زہری، امام مالک، سعید بن جبیر، عکرمہ اور خلیل رحمہم اللہ کا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ، مجاہد اور حضرت حسن بصری نے کہا : تمام قسم کے کھجور کے درخت ہیں، انہوں نے عجوہ اور کسی دوسری قسم کو مستثنیٰ نہیں کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس سے مراد کھجور کی ایک قسم ہے۔ امام ثوری سے مروی ہے : یہ عمدہ کھجوروں کے درخت ہیں۔ ابو عبیدہ نے کہا : عجوہ اور برنی کے علاوہ تمام اقسام کے درخت مراد ہیں۔ جعفر بن محمد نے کہا : اس سے مراد عجوہ ہے۔ یہ ذکر کیا عتیق اور عجوہ دونوں حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں تھے۔ عتیق سے مراد فحل ہے۔ عجوہ تمام مونث درختوں کی اصل ہے ؛ اس وجہ سے یہودیوں پر یہ امر بڑا شاق گزرا، یہ ماوردی نے بیان کیا ہے۔ یہ کھجور کی ایک قسم ہے جس کے پھل کو لون کہتے ہیں اس کی خشک کھجور سب سے عمدہ ہوتی ہے۔ یہ سخت زرد ہوتی ہے، اس کی گھٹلی باہر سے دیکھی جاسکتی ہے۔ اس میں داڑھ غائب ہوجاتی ہے، اس کا درخت انہیں غلام سے زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد ایسا درخت ہے جو زمین سے قریب ہو زیادہ بلند نہ ہو۔ اخفش نے یہ شعر پڑھا : قد شجانی الحمام حین تغنی بفراق الاحباب من فوق لینہ فاختہ نے جب لینہ درخت پر محبوبوں کے فراق میں گانا گایا تو اس نے مجھے غمگین کردیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : لینہ سے مراد فسیلہ (قلمی کھجور) ہے کیونکہ یہ سب سے نرم کھجور ہوتی ہے : اسی بارے میں شاعر نے کہا : غرسوا لینھا بمجزی معین چم حفوا النخیل بالاجام انہوں نے لینہ کو چشمہ کی گزرگاہ پر لگایا پھر گھنے جنگلوں سے باغ کو چھپا لیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : لینہ سے مراد تمام درخت ہیں کیونکہ اپنی زندگی کی وجہ سے نرم ہوتے ہیں ؛ ذورمہ نے کہا : طراق الخوافی واقع فوق لینۃ ندی لیلہ فی ریشہ یتحقرق پرندوں کے چھوٹے پر، درختوں پر پڑے ہیں رات کی شبنم کے قطرے اس کے پر سے ہلکے ہلکے بہ رہے ہیں۔ دسواں قول یہ ہے : اس سے مراد دی کھجور ہے : یہ اصمعی کا قول ہے۔ کہا : اہل مدینہ کہتے ہیں : ا تنتفخ الموائد حتی توجد الالوان جب تک ردی چیز نہ ہو قدرومنزلت والی چیز کا پتہ نہیں چلتا۔ یہاں الو ان سے ردی کھجور مراد لیتے ہیں۔ ابن عربی نے کہا : زبری اور امام مالک نے جو کہا دو وجودہ سے صحیح ہے (1) وہ دونوں اپنے شہر اور درختوں کو خوب جانتے تھے (2) اشتقاق بھی اس کی تائید کرتا ہے۔ اہل لغت اس کی تصحیح کرتے ہیں کیونکہ لینۃ کا وزن لونہ ہے۔ علماء کے اصول کے مطابق اس میں تعلیل کی گئی تو وہ لینہ ہوگیا، یہی لون ہے جب اس کے آخر میں ھاء داخل ہوئی تو اس کے پہلے حرف کو کسرہ دے گیا گیا جس طرح کبرک الصدی یہ باء کے فتح کے ساتھ ہے۔ بر کہ باء کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ وجہ آخر میں ھاء کا آن ا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : لینہ اصل میں لونہ تھا، وائو کو یاء سے بدل دیا کیونکہ اس کا قبل مسکور ہے لین کہ کی جمع لین ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : اس کی جمع لیان ہے۔ اخفش نے کہا : اسے لینہ نام دیا گیا یہ لون سے مشتق ہے یہ لین سے مشتق نہیں۔ مہدوی نے کہا : اس کے اشتقاق میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : یہ لون سے مشتق ہے اس کی اصل لونہ ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : یہ اصل میں لینہ ہے یہ لان لیکن سے مشتق ہے۔ عبد اللہ نے یوں قراءت کی ماقصعتم من لینۃ ولا ترکتم قوما علی اصولھا یعنی وہ اپنے تنوں پر کھڑے ہیں۔ اعمش نے یوں قرا ئت کی ماقصعتم من لینۃ اترکتموھا قوماء علی اصولھا معنی ہے تم انہیں نہ کاٹو اسے قوماء علی اسلھا بی پڑھا گیا ہے، اس میں دو وجوہ ہیں (1) یہ اصل کی جمع ہے جس طرح رھن اور رھن ہے (2) دائو کی بجائے ضمہ پر اکتفاء کیا گیا ہے۔ اسے قائما علی اصولہ بھی پڑھا گیا ہے اس میں لفظ ما کا اعتبار کیا گیا ہے۔ فباذن اللہ اذن، امر کے معنی میں ہے۔ ولیخری الفسقین۔ تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور اپنی کتب کے ذریعے انہیں ذلیل و رسوا کرے۔
Top