Al-Qurtubi - Al-Haaqqa : 35
فَلَیْسَ لَهُ الْیَوْمَ هٰهُنَا حَمِیْمٌۙ
فَلَيْسَ : تو نہیں ہے لَهُ الْيَوْمَ : اس کے لیے آج هٰهُنَا : یہاں حَمِيْمٌ : کوئی ولی دوست
سو آج اس کا بھی یہاں کوئی دوست دار نہیں .
فلیس لہ الیوم ھھنا حمیم۔ لہ، لیس کی خبر ہے ھاھنا اس کی خبر نہیں کیونکہ اسے خبر بنایا جائے تو معنی یہ بنتا ہے وہاں کھانا نہیں مگر غسلین۔ یہ صحیح نہیں کیونکہ وہاں غسلین کے علاوہ بھی کھانا ہے ھاھنا اس فعل کے متعلق ہے جو لہ کے معنی میں پایا جاتا ہے۔ یہاں حمیم سے مراد قریبی ہے یعنی اس کا کوئی قریبی نہیں جو اس کے لئے نرمی کرے اور اس کا دفاع کرے۔ یہ حمیم سے ماخوذ ہے جس کا معین گرم پانی ہے کیونکہ دوست وہ ہوتا ہے جو اس کے لئے نرمی کرتا ہے اور اس کا دل اس کے لئے جلتا ہے۔ غسلین، یہ غسل سے فعلین کا وزن ہے گویا یہ ان کے بدنوں سے نچڑتا ہے، یہ جہنمیوں کی پیپ ہے جو ان کے زخموں اور شرمگاہوں سے بہتی ہے، حضرت ابن عباس سے مروی ہے ضحاک اور ربیع بن انس نے کہا، اس سے مراد ایسا درخت ہے جسے جہنمی کھاتے ہیں غسل سے مراد وہ چیز ہے جس کے ساتھ سر کو دھویا جاتا ہے جس طرح خطمی مٹی وغیرہ (1) اخفش نے کہا : اسی سے غسلین ہے اس سے مراد وہ چیز ہے جو جہنمی کے گوشت اور خون سے بہتی ہے اس میں یاء نون کا اضافہ کیا گیا ہے جس طرح عفرین میں اضافہ کیا گیا ہے۔ قتادہ نے کہا : اس سیم راد سب سے برا کھانا ہے۔ ابن زید نے کہا، نہ اس کا پتہ ہے اور نہ ہی زقوم کا پ تہ ہے کہ وہ کیا ہے ایک اور موقع پر کہا، لیس لھم طعام الا من ضریع۔ (الغاشیہ) ۔ یہ بھی جائز ہے کہ ضریع کی غسلین ہی ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کلام میں تقدیم و تاخیر ہے معنی ہے آج ان کے لئے وہاں کوئی کھانا نہیں مگر غسلین۔ وہ گرم پانی ہوگا۔ انطعام ان کے لئے ایسا کھانا نہیں ہوگا جس سے وہ نفع اٹھا سکیں۔ لایاکلۃ الا الخاطون۔ خاصون سے مراد گناہگار ہیں۔ حضرت ابن عباس نے کہا، مراد مشرکین ہیں۔ اسے الخاطیون بھی پڑھا گیا ہے ہمزہ کو یاء سے بدلا گیا ہے اسے حذف کر کے الخاطون بھی پڑھا گیا ہے۔ حضتر ابن عباس سے مروی ہے : یہ خاطون کیا ہے۔ “ ہم میں سے ہر کوئی قدم اٹھاتا ہے۔ ابوالاسود نے ان سے روایت نقل کی ہے : یہ خاصون کیا ہے صابون کیا ہے یہ اصل میں صابون ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ مراد وہ لوگ ہوں جو حق سے باطل کی طرف قدم پڑھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔
Top