Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 39
لِیُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِیْنَ
لِيُبَيِّنَ : تاکہ ظاہر کردے لَهُمُ : ان کے لیے الَّذِيْ : جو يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے ہیں فِيْهِ : اس میں وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ جان لیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کای (کافر) اَنَّهُمْ : کہ وہ كَانُوْا كٰذِبِيْنَ : جھوٹے تھے
یہ اس لیے ہے تاکہ وہ واضح کردے ان پر اس چیز کو جس میں یہ اختلاف کررہے ہیں اور تاکہ جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ خوب جان لیں کہ بلاشبہ وہی جھوٹے تھے۔
لِیُبَیِّنَ لَھُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّھُمْ کَانُوْا کٰذِبِیْنَ ۔ (سورۃ النحل : 39) (یہ اس لیے ہے تاکہ وہ واضح کردے ان پر اس چیز کو جس میں یہ اختلاف کررہے ہیں اور تاکہ جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ خوب جان لیں کہ بلاشبہ وہی جھوٹے تھے۔ ) قیامت کی عقلی و اخلاقی ضرورت اس آیت کریمہ میں حیات بعدالموت اور قیام قیامت کی عقلی اور اخلاقی دلیلیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ عقل یہ جاننا چاہتی ہے کہ انسانوں نے ہر دور میں خیر و شر اور حق و باطل کے حوالے سے بیشمار نقطہ ہائے نگاہ اختیار کیے ہیں۔ ہر نقطہ نگاہ کی وکالت میں بیشمار شخصیتوں نے اپنا رول ادا کیا پھر اپنے اپنے مؤقف کی حمایت میں زوردار دلائل بھی دیے ہیں اور بعض دفعہ طاقت بھی استعمال کی ہے۔ اسی کشمکش میں کبھی دولت لٹی ہے، کبھی پسینہ بہا اور کبھی خونریزی تک نوبت پہنچی۔ اللہ تعالیٰ کے نبیوں نے اپنے اپنے وقتوں میں آکر صحیح صورتحال واضح کرنے کی کوشش فرمائی لیکن اہل دنیا نے عموماً ان کے مؤقف کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ عقل کا یہ تقاضا بالکل بجا ہے کہ جن باتوں پر اس حد تک کشیدگی پیدا ہوتی رہی ہے کبھی تو معلوم ہو کہ ان کی اصل حقیقت کیا ہے۔ اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ ابھی تمہارے سامنے مکہ کی سرزمین میں کلمہ حق سربلند ہوا۔ ایک نہایت دلآویز شخصیت نے اپنے یقین و عمل کا پورا سرمایہ اس پر لگا دیا۔ نہایت اخلاص کے ساتھ ایک ایک کے سامنے وہ کلمہ حق رکھا گیا لیکن چند سعید لوگوں کے سوا بیشتر نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور پھر صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جس شخص نے بھی اسے قبول کیا اسے جینا دوبھر کردیا۔ اسے شہر میں رہنا ناممکن بنادیا۔ غریبوں کو غربت کی سزا دی گئی، غلاموں کو ادھیڑا کھدھیڑا گیا، عزت والوں کی عزتیں پامال ہوگئیں، کتنے لوگ جانیں بچانے کے لیے ہجرت کرگئے۔ کیا اخلاق یہ تقاضا نہیں کرتے کہ ظلم کے اس کاروبار کا کچھ تو نتیجہ سامنے آنا چاہیے۔ اگر ظالم ظلم کرتے رہیں اور مظلوم ظلم سہتے رہیں اور کچھ معلوم نہ ہو کہ ظلم اچھا ہے یا مظلومیت یا یہ دونوں برابر ہیں۔ ایک قربانی دیتا رہے اور دوسرا قربانی لیتا رہے اور کہیں بھی اس کا فیصلہ نہ ہو کہ ان دونوں رویوں میں کون سا رویہ صحیح ہے۔ تو پھر اس کے سوا کیا ہوگا کہ اس دنیا میں مظلوموں کی چیخوں اور آہوں کے سوا کچھ نہیں رہ جائے گا۔ طاقت کا بول بالا ہوگا، حقیقت سرنگوں ہوجائے گی، ظلم کے پھریرے لہرائیں گے، انسانی قدریں ایک ایک کرکے دم توڑ جائیں گی، لوگ اپنے جھونپڑوں میں پکار پکار کر تھک جائیں گے۔ تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات حاصل کلام یہ کہ عقل کا تقاضا بھی ہے اور اخلاق کا بھی، کہ مختلف نقطہ ہائے نظر کے اختلاف کی حقیقت بھی کھلے اور اخلاق اور بداخلاقیوں کے رویئے میں کوئی حدِ فاصل بھی قائم ہو اور ایک دن ایسا آئے جب ان دونوں کو الگ الگ کھول دیا جائے اور یہ بات واضح ہوجائے کہ قریش کے وہ لوگ جنھوں نے حق کو قبول کرنے سے انکار کیا اور مسلمانوں پر مظالم توڑے وہ جھوٹے تھے۔
Top