Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 39
لِیُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِیْنَ
لِيُبَيِّنَ : تاکہ ظاہر کردے لَهُمُ : ان کے لیے الَّذِيْ : جو يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے ہیں فِيْهِ : اس میں وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ جان لیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کای (کافر) اَنَّهُمْ : کہ وہ كَانُوْا كٰذِبِيْنَ : جھوٹے تھے
اس لیے کہ جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے ہیں ان کی حقیقت کھول دے اور اس لیے کہ منکر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے
جن باتوں میں لوگ شک کرتے ہیں انہی کو کھولنے کے لئے قیامت قائم ہوگی : 46۔ زیر نظر آیت حیات بعد الموت اور قیام حشر کی عقلی اور اخلاقی ضرورت ہے ، دنیا میں جب سے انسان پیدا ہوا ہے ، ۔ حقیقت کے بارے میں بیشمار اختلافات رونما ہوئے نہیں اختلافات کی بنا پر نسلوں اور قوموں اور خاندانوں میں پھوٹ پڑی ہے ، انہی کی بناء پر مختلف نظریات رکھنے والوں نے اپنے الگ مذہب ‘ الگ معاشرے ‘ الگ تمدن بنائے یا اختیار کئے ہیں ایک ایک نظرئیے کی حمایت اور وکالت میں ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے مختلف زمانوں میں جان ‘ مال آبرو ‘ ہرچیز کی بازی لگا دی ہے اور بیشمار مواقع پر ان مختلف نظریات کے حامیوں میں ایسا سخت کشاکشی ہوئی ہے کہ ایک نے دوسرے کو بالکل مٹا دینے کی کوشش کی ہے اور مٹنے والے نے مٹتے مٹتے بھی اپنا نقطہ نظر نہیں چھوڑا ہے ، عقل چاہتی ہے کہ ایسے اہم اور سیدہ اختلافات کے متعلق کبھی تو صحیح اور یقینی طور پر معلوم ہو کہ فی الواقع ان کے اندر حق کیا تھا اور باطل کیا ؟ راستی پر کون تھا اور ناراستی پر کون ؟ اس دنیا میں تو کوئی امکان اس پردے کے اٹھنے کا نظر نہیں آتا ۔ بلاشبہ عمل مکافات موجود ہے اور اس سے انسان دو چار بھی ہوتا ہے لیکن جو وضاحت مطلوب ہے وہ اس سے حاصل نہیں ۔ اس دنیا کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ اس میں حقیقت پر سے پردہ اٹھ نہیں سکتا اور یہ نظام اس طرح کا ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے بعد کوئی دوسرا نظام ہو اگر وہ نہ ہوتا تو یقینا اس دنیا کا نظام بھی اس طرح قائم نہ ہوتا ، لہذا لامحالہ عقل کے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لئے ایک دوسرا ہی عالم درکار ہے اور پھر یہ صرف عقل ہی کا تقاضا نہیں ہے بلکہ اخلاق کا تقاضا بھی ہے کیونکہ ان اختلافات اور ان کش مکشوں میں بہت فریقوں نے حصہ لیا ہے ‘ کس نے ظلم کیا ہے اور کس نے ظلم سہا ہے ، کس نے قربانیاں کی ہیں اور کس نے ان قربانیوں کو وصول کیا ہے ، ہر ایک نے اپنے نظریئے کے مطابق ایک اخلاقی فلسفہ اور ایک اخلاقی رویہ اختیار کیا ہے اور اسی سے ابروں اور کھربوں انسانوں کی زندگیاں برے یا بھلے طور پر متاثر ہوئی ہیں ، آخر کوئی دقت تو ہونا چاہئے کہ ان سب کا اخلاقی نتیجہ صلے یا سزا کی شکل میں ظاہر ہو ، اس دنیا کا نظام اگر صحیح اور مکمل اخلاقی نتائج کے ظہور کا متحمل نہیں ہے تو ایک دوسری دنیا ہونی چاہئے جہاں یہ نتائج ظاہر ہو سکیں اور یہی بات زیر نظر آیت میں بیان ہوئی ہے ۔
Top