Ruh-ul-Quran - Maryam : 66
وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا
وَيَقُوْلُ : اور کہتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان ءَ اِذَا : کیا جب مَا مِتُّ : میں مرگیا لَسَوْفَ : تو پھر اُخْرَجُ : میں نکالا جاؤں گا حَيًّا : زندہ
(اور انسان کہتا ہے کہ کیا جب میں مر جائوں گا تو پھر زندہ کرکے نکالا جائوں گا۔
وَیَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ئَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا۔ اَوَلاَ یَذْکُرُالْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰـہُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَکُ شَیْئًا۔ (مریم : 66، 67) (اور انسان کہتا ہے کہ کیا جب میں مرجاؤں گا تو پھر زندہ کرکے نکالا جاؤں گا۔ اور کیا انسان یہ یاد نہیں کرتا کہ ہم نے اس کو اس سے پہلے پیدا کیا حالانکہ وہ کچھ بھی نہ تھا۔ ) منکرینِ قیامت کے دلائل کی تردید حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی معذرت کے بعد اب پھر اصل سلسلہ بیان شروع ہورہا ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف سے پیش کردہ کلام میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا شدت سے انتظار رہتا تھا کیونکہ مخالفین کی جانب سے جیسے جیسے تکلیفوں اور اذیتوں میں شدت بڑھتی جاتی اور مسلمانوں کے مصائب میں اضافہ ہوتا جاتا، ویسے ویسے آنحضرت ﷺ محسوس فرماتے کہ ان حالات میں رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے شاید کوئی نیا حکم آنے والا ہو، تو اس کے لیے آپ ﷺ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے منتظر ہوجاتے۔ چناچہ پیش نظر آیت کریمہ میں مشرکین کی مخالفت کے پس منظر میں توحید و رسالت کے بعد جو بنیادی عقیدہ کارفرما تھا وہ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کا عقیدہ تھا۔ مشرکین اگرچہ اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق اور رازق مانتے تھے لیکن اس بات میں انھیں شبہ تھا کہ مرنے کے بعد کوئی شخص زندہ کرکے دوبارہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ان کی عقل میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ ایک شخص سالوں گزر جانے کے بعد مٹی میں مل جاتا ہے اور اس کے جسم کا نشان تک نہیں رہتا تو آخر اسے دوبارہ کیسے زندہ کیا جاسکتا ہے ؟ ان میں اگرچہ ایسے لوگ بھی تھے جو بالکل قیامت کے منکر تھے، لیکن بیشتر لوگ کھلے انکار کی بجائے تردد کا شکار تھے اور عقلی استبعاد کے باعث اس عقیدہ کو قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ اور اس طرح کی باتیں اور عقلی استبعاد کا اظہار چند نام نہاد دانشوروں کی طرف سے نہیں بلکہ اس دور کے عام انسانوں کی یہی سوچ تھی، لیکن کہنے والی زبانیں اگرچہ ان لوگوں کی ہوتی ہیں جو کسی بھی معاشرے کے سربرآوردہ لوگ ہوتے ہیں تو اس آیت میں بھی مراد وہی ہیں لیکن انسان کا لفظ لا کر اس عقیدے کی گہرائی اور عموم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پروردگار نے نہایت سہل اور سادہ انداز میں اس کا رد فرماتے ہوئے ایسی عقلی دلیل دی ہے جو عام سے عام آدمی بھی سمجھتا ہے اور بڑے سے بڑا عقلمند بھی اس کے انکار کی جرأت نہیں کرسکتا۔ دلیل کا حاصل یہ ہے کہ تمہیں دوبارہ جی اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہی کے لیے جمع ہونے سے انکار اس لیے ہے کہ تمہاری عقل اسے تسلیم نہیں کرتی کہ ایک شخص جو موت کا شکار ہوگیا پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اسے زمین میں دفن کردیا گیا۔ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باعث مٹی اس کے جسم کو بھی کھا گئی۔ جان اس کی پہلے ہی نکل چکی تھی، جسم کا نشان باقی تھا وہ بھی اب ختم ہوگیا۔ ایسی صورت میں اس شخص کا دوبارہ زندہ ہونا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ اعتراض کرنے والا انسان کیا بھول گیا ہے کہ وہ اپنے وجود میں آنے سے پہلے لاشے اور عدم محض تھا اور اگر اس کے آغاز کو لیا جائے تو پھر یہ کہنا چاہیے کہ اس کے تو ماں باپ تھے جن کے اتصال سے اس کی تخلیق ہوئی، لیکن اس کے جدِامجد یعنی انسانِ اول کو جب پیدا کیا گیا تو اس کے تو ماں باپ بھی نہ تھے یعنی وہ اپنے ہونے سے پہلے وجود کی کوئی علت بھی نہیں رکھتا تھا۔ تو ایسے عدم محض سے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا اور پھر اس کے پیدا ہونے کا جو پر اسس ہے وہ بجائے خود عقل کے لیے چیلنج ہے۔ اور پھر دنیا میں اس کی آمد، پھر قدم قدم پر اس کی نشوونما، حتیٰ کہ شعور اور بلوغت کی عمر کو پہنچ کر اس کا مکمل انسان بن جانا، اس میں کون سا ایسا موقع ہے جو انسان کے لیے حیرانی کی دنیا پیدا نہیں کردیتا اور اس سب کچھ کا آغاز عدم محض اور کچھ نہ ہونے سے ہوا اور اب جبکہ انسان ایک وجود رکھتا ہے اور موت کا شکار ہو کر بھی ممکن ہے اس کے وجود کی کوئی نہ کوئی رمق کہیں باقی رہ گئی ہو اور اگر ایسا نہیں تو اس کا ایک نمونہ تو بہرحال موجود ہے، اس سے اس کا ازسرنو پیدا کیا جانا کیا پہلے پیدا کیا جانے سے مشکل ہے ؟ جو قادر مطلق ذات عدم محض اور کچھ نہ ہونے سے پیدا کرسکتی ہے، اس کے لیے کچھ ہونے سے پیدا کرنا تو بہت آسان ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ جو مشکل ترین چیز تھی اسے تم نے تسلیم کرلیا اور جو نسبتاً آسان ہے، اس کا انکار کررہے ہو۔
Top