Ruh-ul-Quran - Maryam : 77
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ كَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًاؕ
اَفَرَءَيْتَ : پس کیا تونے دیکھا الَّذِيْ : وہ جس نے كَفَرَ : انکار کیا بِاٰيٰتِنَا : ہمارے حکموں کا وَقَالَ : اور اس نے کہا لَاُوْتَيَنَّ : میں ضرور دیا جاؤں گا مَالًا : مال وَّوَلَدًا : اور اولاد
بھلا آپ نے دیکھا اس شخص کو جو ہماری آیات کا منکر ہوا اور کہا کہ مجھے مل کر رہے گا مال اور اولاد۔
اَفَرَئَ یْتَ الَّذِیْ کَفَرَبِاٰیٰـتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالاً وَّوَلَدًا۔ اَطَّلَعَ الْغَیْبَ اَمِ اتَّخَذَعِنْدَالرَّحْمٰنِ عَہْدًا۔ کَلَّا ط سَنَکْتُبُ مَایَقُوْلُ وَنَمُدُّلَـہٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا۔ وَّنَرِثُـہٗ مَایَقُوْلُ وَیَاْ تِیْنَا فَرْدًا۔ (مریم : 77، 78، 79، 80) (بھلا آپ نے دیکھا اس شخص کو جو ہماری آیات کا منکر ہوا اور کہا کہ مجھے مل کر رہے گا مال اور اولاد۔ کیا اس نے غیب میں جھانک کر دیکھ لیا ہے یا رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہے۔ ہرگز نہیں ہم لکھ رکھیں گے جو وہ کہتا ہے اور اس کے عذاب میں مزید اضافہ کریں گے۔ اور جن چیزوں کا وہ مدعی ہے اس کے وارث ہم بنیں گے اور وہ ہمارے پاس اکیلا حاضر ہوگا۔ ) ایک اور خودفریبی کا رد مشرکینِ مکہ جن خودفریبیوں کے باعث قیامت کے انکار کررہے تھے ان میں سے ایک خودفریبی یہ تھی کہ جو خوشحالی، عیش اور آرام ہمیں دنیا کی زندگیوں میں میسر ہے یہ سب کچھ اگر آخرت وقوع پذیر ہوئی تو وہاں بھی ہمیں ملے گا۔ یہاں کے مالدار اور صاحب اولاد وہاں بھی ایسے ہی ہوں گے اور جو دنیا میں بدحالی میں مبتلا ہیں اور نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں وہ آخرت میں بھی اسی طرح ٹھوکریں کھائیں گے۔ بعض روایات سے ان کی اس خودفریبی کی تائید ہوتی ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت خباب ( رض) بن الارت کی روایت ہے کہ ان کا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمہ تھا۔ یہ اس کے پاس تقاضا کے لیے گئے۔ اس نے کہا میں تمہارا قرض اس وقت تک ادا نہیں کروں گا جب تک تم محمد ﷺ کی نبوت کا انکار نہ کرو۔ حضرت خباب ( رض) نے جواب دیا کہ میں یہ حرکت ہرگز نہیں کروں گا یہاں تک کہ تو مرجائے اور پھر تجھے قیامت کے دن اٹھایا جائے۔ اس نے ازراہِ مذاق کہا کہ جب مرنے کے بعد میں قبر سے اٹھوں گا، اس وقت میرے پاس دولت کی فراوانی ہوگی، اس وقت میرے پاس آنا، میں تمہارا قرض ادا کردوں گا۔ (بخاری و مسلم) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں جن بداعمالیوں میں مبتلا تھے اس کے بارے میں ان کے لیے فکرمندی کا کوئی موقع نہ تھا کیونکہ ان کا غالب گمان یہ تھا کہ اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں، جو شخص مرجاتا ہے اس کی زندگی ختم ہوجاتی ہے اور قبر ایک دن اس کے جسم کو بھی کھا جاتی ہے۔ اور اگر فرض کریں کہ قیامت کے آنے کا کوئی امکان ہے جس کی وجہ سے لوگ دو باہ اٹھائے جائیں گے اور محشر میں اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر ہوں گے تو انھیں ان کی بھی تشویش نہیں تھی کیونکہ وہ اس مغالطے میں مبتلا تھے کہ جو شخص دنیا میں خوش عیشی سے زندگی گزار رہا ہے، آخرت میں بھی اسے ایسی ہی زندگی اور زندگی کے ایسے ہی حالات نصیب ہوں گے۔ قرآن کریم نے ان کے اس مغالطے کا رد کرتے ہوئے اسی انداز میں ارشاد فرمایا کہ آنے والی زندگی میں جو کچھ پیش آنے والا ہے وہ یکسر غیب کا معاملہ ہے جس پر آج اطلاع ممکن نہیں۔ اسے جاننے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ صرف وحی الٰہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے نبیوں پر اترتی ہے اور تمہارے نزدیک یہ ذریعہ قابل قبول نہیں۔ ایسی صورت میں تمہارا اس عالم غیب کے بارے میں کوئی بات کہنا اس کے سوا ممکن نہیں کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ تم نے اس غیب کی دنیا کو جھانک کر دیکھ لیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی انسان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ایک ایسی بات کہہ رہے ہو جو تمہاری دسترس سے باہر ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ تم نے خدائے بزرگ و برتر سے کوئی عہد لے رکھا ہو کہ آخرت میں ہمارے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو دنیا میں ہورہا ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ بات کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسا عہد لے لے۔ ان تمام امکانات کے مردود ٹھہرنے اور مسترد کیے جانے کے بعد ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ایسی بات کہنے والا ایک ناروا جسارت کا ارتکاب کررہا ہے اور اسے بالکل اندازہ نہیں کہ میں اس طرح کی بات کرکے کتنی بڑی گستاخی کررہا ہوں۔ اس لیے پروردگار نے فرمایا، ایسی جسارتیں کرنے والے کو ہم فوری طور پر تو نہیں پکڑتے، البتہ ! یہ ضرور ہے کہ ہم اس کی اس طرح کی یا وہ گوئی کو لکھ رکھیں گے، یعنی ہمارے فرشتے اس کی اس طرح کی باتوں کا ریکارڈ رکھیں گے۔ اور قیامت کے دن اس کے کفر کے باعث جو اسے سزا ملنے والی ہے اس طرح کی یا وہ گوئی کی وجہ سے اس میں ہم مزید اضافہ کردیں گے، یعنی کفر کی سزا الگ ہوگی اور اس طرح کی دریدہ دہنی اور بکواس کی سزا اس پر مستزاد ہوگی، جس طرح ہمارے یہاں عدالتیں اس مجرم کو مختلف قسم کی سزائیں دیتی ہیں جس کے جرائم ایک سے زیادہ ہوں۔ ایسے مجرم کا قیامت کے دن بھی یہی حال ہوگا۔ مزید فرمایا کہ اسے غلط فہمی یہ ہے کہ دنیا میں میرے پاس جو مال و دولت ہے یہ شاید ہمیشہ میرے پاس رہے گا حالانکہ جب اسے موت آجائے گی تو دنیا میں جس مال و دولت اور عہدہ و منصب کے باعث یہ اپنے مالک و آقا کے سامنے بھی گستاخی سے باز نہیں آتا وہ سب کچھ اپنے پیچھے چھوڑ جائے گا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے بعد اس کے وارث ہم ہوں گے اور جن اعوان و انصار اور لائولشکر پر اسے بڑا گھمنڈ اور غرور ہے وہ قیامت کے دن اکیلا ہمارے پاس آئے گا اور کوئی ان میں سے ان کے ساتھ نہیں ہوگا۔ اور جن شرکاء و شفعاء پر اسے بھروسہ تھا کہ وہ قیامت کے دن میرے کام آئیں گے ان میں کوئی اس کے ساتھ نہیں ہوگا۔ جس طرح وہ دنیا میں تنہا گیا تھا اسی طرح وہ تنہا ہمارے پاس آئے گا۔ انسان کی بےبصیرتی انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل اور شعور سے نوازا ہے اور دنیا میں جتنی ہمہ ہمی اور رنگا رنگی نظر آتی ہے وہ سب کچھ اس کی عقل کے طفیل ہے انسانی عقل نے وہ وہ کارنامے انجام دیئے ہیں کہ خود عقل اسے دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے۔ گزشتہ زمانے میں کون تصور کرسکتا تھا کہ کبھی لوہے میں بھی قوت پرواز پیدا ہوجائے گی اور وہ فضاء میں اڑنے لگے گا اور کبھی ایک ایسی مشین ایجاد ہوجائے گی جو انسانی دماغ کی طرح کام کرے گی۔ لیکن یہ سب کچھ کے باوجود انسان اس قدر بےبصیرت واقع ہوا ہے کہ وہ مادہ کے اس پار دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ موت ایک حقیقت ہے لیکن وہ اس کا استحضار نہیں رکھتا۔ قوموں اور انبیاء کی شہادت سے جو حقائق ثابت ہیں اور انسانیت جن اقدار سے ہمیشہ عبارت رہی ہے محض خواہشاتِ نفس کی تعمیل کے لیے ان سے انکار کردینا بلکہ اسے پامال کردینا انسان کی روایت رہی ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا تھا : روندنے والا یہ ستاروں کی گزر گاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا یہی وہ بےبصیرتی اور خرد کی تنگ دامانی ہے جس کا یہاں گلہ کیا جارہا ہے۔
Top