Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 91
وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَالَّتِيْٓ : اور عورت جو اَحْصَنَتْ : اس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرمگاہ (عفت کی) فَنَفَخْنَا : پھر ہم نے پھونک دی فِيْهَا : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَجَعَلْنٰهَا : اور ہم نے اسے بنایا وَابْنَهَآ : اور اس کا بیٹا اٰيَةً : نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور یاد کرو اس پاکدامن بی بی کو جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا، تو ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونکی اور ہم نے اسے اور اس کے بیٹے کو دنیا والوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی بنادیا۔
وَالَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْھَا مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰـھَا وَابْنَھَـآ اٰ یَـۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔ (الانبیاء : 91) (اور یاد کرو اس پاکدامن بی بی کو جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا، تو ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونکی اور ہم نے اسے اور اس کے بیٹے کو دنیا والوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی بنادیا۔ ) حضرت مریم [ کا تذکرہ ان عظیم شخصیتوں کا ذکر ہورہا ہے جنھوں نے ہر طرح کے ناموافق حالات میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کیا اور پھر اسی کو پکارا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے صبر اور استقامت کی لاج رکھی اور ان کی دُعائوں کو قبول فرماتے ہوئے ان کو کامیابیوں سے نوازا۔ انھیں میں سے حضرت مریم [ بھی ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے اظہار اور اپنی ایک نشانی دکھانے کے لیے بہت بڑے امتحان میں ڈالا۔ نہایت نیک نام خاندان کی دختر نیک اختر ہوتے ہوئے کنوارپن میں انھیں بچے کی ماں بننے کی آزمائش میں مبتلا کیا۔ انھوں نے ہر طرح کے حالات میں جس طرح اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کی اور جس طرح اس عظیم ابتلا سے نہایت استقامت اور صبر کے ساتھ گزریں، اس پر اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے احسانات سے نوازا۔ توالد و تناسل کے لیے اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ نر اور مادہ کے اتصال سے سے توالد کا سلسلہ چلتا ہے اور انسانوں میں بھی اسی طرح نوع انسانی کا قافلہ چلتا رہا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ دنیا کو یہ دکھایا جائے کو نوع انسانی کا یہ قافلہ اپنے آپ محو سفر نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا قانون ہے جس کے نتیجے میں یہ قافلہ چل رہا ہے۔ وہ اگر چاہے تو اس قانون کو توڑ کر بغیر مرد اور عورت کے اتصال کے بچہ پیدا کرسکتا ہے۔ چناچہ اپنی اس قدرت کے اظہار کے لیے حضرت مریم [ کا انتخاب ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اظہار میں تو کوئی دشواری نہ تھی لیکن حضرت مریم [ کے لیے اس ابتلا سے گزرنا ہزاروں مشکلات سے گزرنا تھا۔ خاندان کی نیک نامی کو بٹہ لگانا تھا، اپنی ذات اور اپنی شرم و حیاء کو لمبی زبانوں کی سولی پر لٹکانا تھا لیکن حضرت مریم[ نے یہ سب کچھ برداشت کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس نشانی کے اظہار اور استقرارِ حمل کے لیے جو طریقہ اختیار کیا وہ نفخ روح تھا۔ اس سے سینٹ پال اور دوسرے گمراہ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش نفخ خداوندی سے ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی صفات چونکہ ازلی اور ابدی ہیں، اس لیے آپ ( علیہ السلام) بھی ازلی اور ابدی ہیں۔ اور مزیدبراں یہ کہ صفات چونکہ موصوف کا حصہ ہوتی ہیں اور اس سے منفک نہیں ہوسکتیں۔ بنابریں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی خداوندِذوالجلال سے الگ نہیں بلکہ اس کی ذات کا حصہ ہیں۔ چناچہ اسی گمراہی کے ازالے کے لیے پروردگار نے فرمایا۔ اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَاللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَم ” بیشک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال اللہ تعالیٰ کے یہاں حضرت آدم کی مثال کی طرح ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو ماں اور باپ دونوں کے بغیر صرف کلمہ کن سے پیدا کیا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی بغیر باپ کے کلمہ کن سے پیدا کیا گیا ہے اور مزید یہ بات کہ پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنا رہا ہوں۔ فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوْحِیْ فَقَعُوْا لَـہٗ سَاجِدِیْن ” پس جب میں اسے پورا بنا لوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔ “ جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی روح کے نفخ سے پیدا کیا۔ اس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) کو بھی اپنی روح کے نفخ سے پیدا کیا۔ لیکن آج تک کبھی کسی شخص نے یہ نہیں کہا کہ آدم خدا ہیں، خدا کے بیٹے ہیں یا خدائی میں شریک ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ معمول کے طریقہ تخلیق کی بجائے جب اللہ تعالیٰ کسی کو براہ راست اپنے حکم سے وجود میں لا کر زندگی بخشتا ہے تو اس کو اپنی روح سے پھونکنے کے الفاظ سے تعبیر فرماتا ہے اور اس روح کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف غالباً اس وجہ سے کی گئی ہے کہ اس کا پھونکا جانا معجزے کی غیرمعمولی شان رکھتا ہے۔ لیکن برخودغلط لوگوں نے اس کو اپنی خانہ ساز تعبیروں سے کچھ سے کچھ بنا کے رکھ دیا۔
Top