Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 64
لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ۠   ۧ
لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو کچھ فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَهُوَ : البتہ وہی الْغَنِيُّ : بےنیاز الْحَمِيْدُ : تمام خوبیوں والا
اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور بیشک اللہ ہی ہے جو بےنیاز اور سزاوارِ حمد ہے۔
لَہٗ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط وَاِنَّ اللّٰہَ لَھُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ۔ (الحج : 64) (اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور بیشک اللہ ہی ہے جو بےنیاز اور سزاوارِ حمد ہے۔ ) قریش کو تنبیہ سابقہ مضمون کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کی ملکیت اور اس کے اختیار میں ہے۔ اس نے جن وانس کو فی الجملہ آزادی دے رکھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ شعوروعقل بھی، تاکہ وہ آزادانہ مرضی اور شعوروعقل سے کام لے کر حق و باطل میں سے کسی ایک راستے پر چلنے کا فیصلہ کرے۔ لیکن انسان کو اس آزادی کی نعمت سے متمطع ہوتے ہوئے یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسے اللہ نے جن نعمتوں سے گراں بار کیا ہے اس کے بارے میں کبھی اس سے باز پرس نہیں ہوگی۔ دنیا کو کوئی حکیم اور دانش ور اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ انسان جیسی عقیل وفہیم اور بیشمار صلاحیتوں سے مالامال مخلوق کو اس طرح بےمقصد پیدا کیا گیا ہوگا کہ وہ من مرضی کی زندگی گزار کر دنیا سے چلی جائے جس طرح خودرو پودے مل دل کر ختم ہوجاتے ہیں اور اسے کسی جواب دہی سے واسطہ نہ پڑے۔ انسان جس ذات کی ملکیت میں ہے اور جس کا اختیار جس پر حاوی ہے ایک وقت ایسا آئے گا جب وہ اپنے اختیار کو بروئے کار لا کر انسانوں سے جواب طلب کرے گا۔ مزید فرمایا کہ احتیاج سے پاک اور بےنیاز ذات صرف اللہ کی ہے۔ انسان تو قدم قدم پر اللہ کا محتاج ہے۔ اس لیے وہ اپنی احتیاجات کو پورا کرتے ہوئے اگر نیاز مندی کا رویہ اختیار نہیں کرتا تو اسے اس کا جواب دینا ہوگا۔ ممکن ہے کسی کو یہ خیال آئے کہ پروردگار اپنے آپ کو منوانے اور انسانوں کو اپنے آگے جھکانے پر شائد اس لیے اصرار کرتا ہے کہ اسے اپنی حمد وثنا پسند ہے اور وہ اس کا خواہش مند رہتا ہے کہ لوگ اس کی حمدوثنا میں رطب اللسان رہیں۔ اس خیال کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جس طرح بےنیاز ہے اسی طرح سزاوارِ حمد وثنا اور ستودہ صفات بھی ہے۔ وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ خواہ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے۔
Top