Urwatul-Wusqaa - Al-Hajj : 64
لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ۠   ۧ
لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو کچھ فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَهُوَ : البتہ وہی الْغَنِيُّ : بےنیاز الْحَمِيْدُ : تمام خوبیوں والا
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے وہی ہے جو بےنیاز ہے ہر طرح کی ستائشوں کا سزاوار
آسمان و زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے وہ غنی ہے اور تعریف کیا گیا ہے : 64۔ ان آیات میں توحید الہی کا درس دیا جا رہا ہے یہ صرف تعریفی فقرے نہیں بلکہ ان کا ہر لفظ اس پس منظر سے گہرا ربط رکھتا ہے جس میں یہ آیات کریمات نازل ہوئیں ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ اور قرآن کریم کے خلا جو لوگ چہ مگوئیاں کر رہے تھے ان کے اعتراضات کی اولین بنیاد یہ تھی کہ آپ ﷺ ان کو توحید کی دعوت دے رہے تھے اور ان لوگوں کے اس دعوت کو سن کر کان کھڑے ہو رہے تھے اور وہ کہتے تھے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ محمد ﷺ کو کیا ہوگیا ہے ؟ پھر خود ہی کہتے کہ شاید اس پر کسی کا سایہ ہوگیا ہے یا یہ پاگل ہوگیا ہے اس پر کسی نے جادو کردیا کہ وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے غور کرو کہ اگر اکیلا اللہ ہی معبود ‘ حاجت روا ‘ مشکل کشا ہے تو ہمارے ان بزرگوں کا کیا بنا ؟ حالانکہ ہمارے باپ دادا ان کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے ‘ کیا ہم سب کے باپ دادا غلط تھے ؟ ان سب کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی جو آج اس کو سوجھی ؟ کیا وہ سب کے سب غلط تھے اور یہ ایک صحیح ہے ؟ ان کو سمجھانے کے لئے کتنا پیارا انداز اختیار کیا فرمایا یہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے اور مالک کے ساتھ اس کی ملکیت میں کسی دوسرے کو آخر کس طرح شریک کیا جاسکتا ہے ؟ جبکہ وہ دوسرے جن کو تم اس کی ملکیت میں شریک سمجھ بیٹھے ہو یا وہ خود اس کی ملکیت میں شریک بن بیٹھے ہیں حالانکہ وہ سب کے سب بھی اس کی مملوک ہیں اور وہ تو ان سب سے زیادہ برتر اور بزرگ تر ہے اس کا تو کوئی بھی ہمسر نہیں ہے وہ غنی ہے اور ساری اچھی تعریفوں کے وہی لائق ہے اس کے سوا کوئی نہیں جس کی ملکیت تصور کی جاسکتی ہو وہ رب العالمین ہے اور کوئی مخلوق بھی خالق کے ساتھ کسی معاملہ میں شریک نہیں ہو سکتی ۔
Top