Ruh-ul-Quran - Al-Hajj : 63
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً١٘ فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ اَنْزَلَ : اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَتُصْبِحُ : تو ہوگئی الْاَرْضُ : زمین مُخْضَرَّةً : سرسبز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَطِيْفٌ : نہایت مہربان خَبِيْرٌ : خبر رکھنے والا
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں سے پانی برساتا ہے تو زمین سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑا ہی باریک بیں اور ہر چیز سے باخبر ہے۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً ز فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّۃً ط اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ۔ (الحج : 63) (کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں سے پانی برساتا ہے تو زمین سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑا ہی باریک بیں اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ ) گزشتہ آیات کریمہ میں جب مسلمانوں کی نصرت و تائید کا وعدہ فرمایا تو کفار نے اسے ایک مذاق سمجھا کیونکہ وہ مسلمانوں کے ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے دور دور تک اس کی امید نہ رکھتے تھے کہ مسلمانوں کو کہیں سے کوئی مدد پہنچ سکتی ہے۔ پروردگار نے ان کے اس تصور استبعاد کو غلط ثابت کرنے کے لیے اپنی بعض صفات کا ذکر فرمایا۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ جس پروردگار کی قدرتوں کا عالم یہ ہے کہ وہ اس کائنات میں متصرفِ حقیقی ہے اس کے ادنیٰ اشارے سے وجود وعدم کا فیصلہ ہوتا ہے۔ لیل والنہار کی گردش اس کے حکم کی پابند ہیں۔ ایسی صفات والے پروردگار کے لیے مایوس کن حالات میں بھی مسلمانوں کی مدد کرنا کیا مشکل ہے ؟ پیش نظر آیت کریمہ میں اسی مضمون کو مزید آگے بڑھایا۔ عرب بارش کی کمیابی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی قحط سالی سے خوب واقف تھے۔ بعض دفعہ ان کے لیے پانی جیسی ناگزیر نعمت کمیاب جنس کی صورت اختیار کرجاتی تھی۔ خانہ بدوش پانی کی تلاش میں ریوڑوں کا ہانکتے ہوئے مارے مارے پھرتے دکھائی دیتے تھے۔ وہ آسمان کی طرف باربار نظریں اٹھاتے لیکن کہیں کوئی ل کہ ابر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ہر طرف دھول اٹھتی ہوئی دکھائی دیتی اور آسمان پر غبار چھایا ہوا نظر آتا۔ جب مایوسی گہری ہونے لگتی تو اچانک تیز ہوائیں چلتیں وہ نہ جانے کہاں سے بادلوں کو ہانکتی ہوئی لاتیں اور فضا میں بادلوں کو چادروں کی طرح بچھا دیتیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بارش برسنے لگتی۔ جل تھل ایک ہوجاتا اور زیادہ دن نہیں گزرتے کہ ہر طرف سبزہ کی بانات بچھ جاتی۔ یہ وہ منظر ہے جسے زمین پر بسنے والے چاہے وہ عرب ہوں یا عجم ہمیشہ سے دیکھتے چلے آئے ہیں۔ اس حیران کن منظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ جو پروردگار خشک سالی کو برسات سے اور جھلستے ہوئے صحرا کو سبزے کے مخملی فرش میں تبدیل کرسکتا ہے اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ مسلمانوں کی محدود افرادی قوت اور نہایت ناگفتہ بہ حالت کو اس طرح تبدیل کرے کہ وہ عرب کی غالب قوت بن اٹھیں اور جس طرح چند دنوں میں زمین سرسبز ہوجاتی ہے اسی طرح ان کی دعوتی اور تبلیغی کاوشوں سے انسانوں کی بنجر زمینیں ایمان کی ہریاول سے لہلہانے لگیں اور عربوں کا نفرتوں سے ابلتا ہوا معاشرہ حسن اخلاق کے کوثر وتسنیم میں تبدیل ہوجائے۔ لطیف کا مفہوم اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ ” بیشک اللہ لطیف اور خبیر ہے “۔ لطیف کا معنی ہے ” دقیقہ رس اور باریک بیں “۔ یعنی وہ غیر محسوس طریقوں سے اپنے ارادے پورے کرنے والا ہے۔ وہ اپنی تدبیروں کو اس طرح بروئے کار لاتا ہے کہ کسی کو اس کا سان گمان بھی نہیں ہوتا اور پھر مزید قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ خبیر بھی ہے۔ جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتایا حکم دیتا ہے۔ تو اس کا مالہ وما علیہ اس کے سامنے ہوتا ہے۔ ماضی بھی اس کے سامنے بےنقاب ہوتا ہے اور مستقبل بھی آئینہ ہوتا ہے۔ اہل مکہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ تم بظاہر اسلامی دعوت کو ناکام ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہو اور تم محسوس کرتے ہو کہ نبی کریم ﷺ کا قافلہ دعوت ایک بند گلی میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ لیکن اس قافلے کی باگ ڈور اور اس تبلیغ و دعوت کا سررشتہ جس کے ہاتھ میں ہے اس کی دقیقہ رسی اور باریک بینی کو تم نہیں جانتے۔ اس نے جب آذر کے گھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پیدا کیا تھا تو نبوت کے بعد ان کے حالات کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا تھا کہ وہ تین چوتھائی دنیا کا پیشوا ثابت ہوگا۔ جب خوردبین ایجاد ہوئی تھی اس وقت کون تصور کرسکتا تھا کہ یہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تک نوبت پہنچائے گی۔ دنیا کے ایسے بیشمار واقعات ہیں جن کی ابتدا انتہائی حوصلہ شکن تھی لیکن اس کی انتہا نہایت حیرت انگیز ثابت ہوئی۔ یہ سب اللہ کے منصوبے ہیں جن کے انجام کے بارے میں انسان کچھ نہیں جانتا جب تک وہ تکمیل کو نہ پہنچ جائیں۔ عمائدینِ قریش مسلمانوں کی بےسروسامانی اور اہل مکہ کی ناقدری کو دیکھتے ہوئے کچھ بھی گمان کریں لیکن جس طرح بارش کے چند چھینٹے جھلسی ہوئی زمین کو سرسبز و شاداب چمن میں تبدیل کردیتے ہیں اسی طرح وہ وقت دور نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و نصرت کی گھٹائیں مکہ اور گردوپیش کی پتھریلی زمین پر اس طرح برسیں کہ کفر وشرک کی تپش سے تپتی ہوئی سلیں اسلام کا فرحت افزا پیغام بن جائیں۔
Top