Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 40
قَالَ عَمَّا قَلِیْلٍ لَّیُصْبِحُنَّ نٰدِمِیْنَۚ
قَالَ : اس نے فرمایا عَمَّا قَلِيْلٍ : بہت جلد لَّيُصْبِحُنَّ : وہ ضرور رہ جائیں گے نٰدِمِيْنَ : پچھتانے والے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا عنقریب یہ لوگ اپنے کیے پر نادم ہو کر رہیں گے
قَالَ عَمَّا قَلِیْلٍ لَّیُصْبِحُنَّ نٰدِمِیْن۔ َ فَاَخَذَ تْہُمُ الصَّیْحَۃُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنٰھُمْ غُثَآئً ج فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (المومنون : 40، 41) (اللہ تعالیٰ نے فرمایا عنقریب یہ لوگ اپنے کیے پر نادم ہو کر رہیں گے۔ آخر کار ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ایک سخت ڈانٹ نے ان کو آپکڑا۔ تو ہم نے ان کو خس و خاشاک کردیا۔ تو برباد ہوجائے وہ قوم جو ستم شعار ہے۔ ) دعا کی قبولیت اللہ کے رسول کی دعا قبول ہوئی۔ تو اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اب اس قوم کی تباہی میں کوئی دیر نہیں عنقریب تم دیکھو گے کہ اللہ کی طرف سے ایسی گرفت ہوگی کہ انھیں خود اندازہ ہوجائے گا کہ ہم نے اللہ کے رسول کی رسالت سے انکار کرکے بہت بڑی حماقت کی۔ اب وہ ندامت کا اظہار کریں گے لیکن یہ ندامت کام نہیں آئے گی۔ چناچہ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اللہ کے عذاب کا کوڑا ان پر برسا اور ایک سخت ڈانٹ نے انھیں آپکڑا۔ صیحۃ : کے معنی ” چنگھاڑ “ کے بھی ہیں اور ” سخت ڈانٹ “ کے بھی۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ عذاب کا نشانہ بننے والوں میں عذاب کے بعدجو ایک ہنگامہ اور چیخ پکاربرپا ہوتی ہے وہ یہاں مراد ہو۔ اس لیے اس کے ایک ہی معنی پر اصرار کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ غثائً : اس خس و خاشاک کو کہتے ہیں جو سیلاب کے ساتھ بہتا ہوا آتا ہے۔ اور پھر کناروں پر لگ لگ کر پڑا سڑتا رہتا ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں عذاب کے ذریعے ریزہ ریزہ کرڈالا۔ ان کی لاشیں اور ان کی بستیوں کا ملبہ کوڑا کرکٹ کی طرح ہوا میں اڑتا اور پانی میں بہتا پھرتا تھا حتی کہ یہ سب کچھ زمین کی خاک بن گیا۔ اس پر اللہ کی طرف سے لعنت اور پھٹکار برسی اور ہمیشہ کے لیے انھیں رحمت سے دور کردیا گیا۔ یہاں بھی کوڑا کرکٹ کی طرح پامال کیے گئے اور قیامت کے دن بھی بدترین انجام سے دوچار ہوں گے۔
Top