Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 165
اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَۙ
اَتَاْتُوْنَ : کیا تم آتے ہو الذُّكْرَانَ : مردوں کے پاس مِنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں
کیا تم ساری مخلوق میں سے مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو
اَتَاْتُوْنَ الذُّکْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْن۔ َ وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَـکُمْ رَبُّکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ ط بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ ۔ (الشعرآء : 165، 166) (کیا تم ساری مخلوق میں سے مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو۔ اور تمہارے رب نے جو تمہارے لیے بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو، بلکہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔ ) سرکشی اور نافرمانی نئی نئی گمراہیوں کو جنم دیتی ہے نفسیات کے ماہرین جانتے ہیں کہ جس طرح نیکیوں اور اچھائیوں کا ایک سلسلہ نسب ہے کہ ایک نیکی دوسری سے پھوٹتی ہے اور اس طرح سے ایک سلسلۃ الذہب کو وجود دیتی ہے۔ اسی طرح برائی کبھی منفرد نہیں ہوتی۔ جب دلوں سے اللہ تعالیٰ کا خوف اٹھ جاتا ہے اور ان میں بعض دوسری چیزیں گھر کر جاتی ہیں تو ایسے دلوں سے نئی نئی برائیوں کی خواہشیں سر اٹھاتی اور نئی نئی قباحتیں جنم لیتی ہیں۔ پیش نظر آیات میں قوم لوط کی ایک بہت بڑی برائی کا ذکر کیا جارہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے اندر صرف یہی ایک برائی پائی جاتی تھی بلکہ اس سے صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ ان کے مزاج اور ماحول کا فساد کس حد تک پہنچ گیا تھا کہ جس نے ان کی فطرت تک کو بگاڑ کے رکھ دیا تھا۔ فطرت کا بگاڑ ہر شخص فطری طور پر اپنی شخصیت کی تکمیل کے لیے عورت کی طرف میلان رکھتا ہے۔ اسی سے شخصیت کا خلاء بھرتا، فطرت کا تقاضا پورا ہوتا اور سلسلہ نسب کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ مرد کا مرد سے شہوت رانی کا تعلق یہ خلاف فطرت فعل ہے جو مزاج کے فساد اور ماحول کے بگاڑ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی قوم من حیث المجموع اس میں مبتلا ہوجاتی ہے یا اس فعل کی شناعت اس قوم سے اٹھ جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شرم و حیاء جو نظام اخلاق کی ریڑھ کی ہڈی ہے وہ اٹھ چکا ہے۔ اور اب اس قوم میں خیر کا کوئی پہلو باقی نہیں رہا۔ چناچہ قوم لوط کی اس برائی کے ذکر کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آیتِ کریمہ کے الفاظ میں دو مطالب کی گنجائش ہے۔ ایک یہ کہ ساری مخلوق میں سے صرف مردوں کو تم نے خواہشِ نفس پوری کرنے کے لیے چھانٹ لیا ہے حالانکہ دنیا میں بکثرت عورتیں موجود ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں تم ہی ایسے لوگ ہو جو شہوت رانی کے لیے مردوں کے پاس جاتے ہو، ورنہ انسانوں میں کوئی دوسری قوم ایسی نہیں بلکہ حیوانات میں سے بھی کوئی جانور یہ کام نہیں کرتا۔ دوسری آیت کریمہ میں ایک بہت بڑے فطری نقصان کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ تم اس حد تک اس برائی کے رسیا ہوگئے ہو کہ تمہاری فطرت بالکل مسخ ہو کے رہ گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہوت رانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے عورت کو پیدا کیا ہے اور مرد اور عورت دونوں میں ایک دوسرے کی طلب پیدا کی ہے لیکن تم اس فطری تقاضے سے محروم ہوگئے ہو۔ اس کا نتیجہ ہے کہ کھیتوں کو تم نے خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیا ہے اور بنجر کو سیراب کرنے کی کوشش کررہے ہو۔ اس پر اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ تم فطرت کی تمام حدود پامال کرچکے ہو اور تمہارے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔
Top