Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 165
اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَۙ
اَتَاْتُوْنَ : کیا تم آتے ہو الذُّكْرَانَ : مردوں کے پاس مِنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں
کیا تم خلق میں سے مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو
166-165 قوم لوط دوثیت یہ ان کی سب سے بڑی معصیت کی طرف اشارہ ہے۔ ہم دوسرے مقام میں وضاحت کرچکے ہیں کہ امرد پرستی قوم لوط میں فیشن بن گئی تھی۔ یہ دیوثیت اگر کسی قوم میں فیشن کی حیثیت حاصل کرلے تو وہ قوم خدا کی زمین پر نجاست کا ایک ڈھیر بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی زمین کو پاک کردیتا ہے۔ ذکر ان کے بعد من العلمین کے الفاظ سے قوم کے اندھے پن کی طرف مقصود ہے کہ خلق میں سے تمہیں اس مقصد کے لئے مرد ہی ملے حالانکہ اس ضرورت کے لئے خدا نے جو چیز بنائی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے بلکہ اندھوں کو بھی نظر آسکتی ہے ! ان کے اسی اندھے پن کی طرف سورة نمل میں یوں اشارہ فرمایا ہے۔ اتالون الفاحشۃ وانتم تبصروں۔ 54 (کیا تم اس کھلی ہوئی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو درآنحالیکہ تم آنکھیں رکھتے ہو !) الٹی گنگا بہانے کا انجام وتذرون ما خلق لکم ربکم من ازوا جکم یہ اس اندھے پن کی وضاحت بھی ہے اور اس ذوق فاسد کا لازمی نتیجہ بھی جن لوگوں کے اندر یہ بیماری پیدا ہوجاتی ہے ان کی فطرت بالکل مسخ ہوجاتی ہے۔ عورت کی رغبت ان کے اندر بالکل مردہ ہوجاتی ہے۔ اس طرح کے لوگ بنجر کو سیراب کرتے اور کھیتوں کو خشک ہونے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں اور پھر یہ الٹی گنگا بہانے کا جو نتیجہ نکلنا چاہئے وہ نکلتا ہے۔ بل انتم قوم عدون یہ انتہائی غم و حسرت کا فقرہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے جرم کے گھنونے پن کی تعبیر سے الفاظ قاصر ہیں۔ تم فطرت کے تمام حدود توڑ کر بہت دور نکل گئے ہو !
Top