Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 20
قَالَ فَعَلْتُهَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَؕ
قَالَ : موسیٰ نے کہا فَعَلْتُهَآ : میں وہ کیا تھا اِذًا : جب وَّاَنَا : اور میں مِنَ : سے الضَّآلِّيْنَ : راہ سے بیخبر (جمع)
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں نے اس کا ارتکاب اس وقت کیا تھا جبکہ میں ناواقف تھا
قَالَ فَعَلْـتُھَآ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَ ۔ فَفَرَتْ مِنْکُمْ لَمَّا خِفْتُکُمْ فَوَھَبَ لِیْ رَبِّیْ حُکْمًا وَّ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّھَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَ بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ ۔ (الشعرآء : 20، 21، 22) (موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں نے اس کا ارتکاب اس وقت کیا تھا جبکہ میں ناواقف تھا۔ تو جب مجھے تم لوگوں سے اندیشہ ہوا تو میں تم سے بھاگ گیا، پھر میرے رب نے مجھے حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں سے بنادیا۔ اور وہ احسان جو تم مجھ پر جتلا رہے ہو، اس کی حقیقت یہ ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب فرعون نے اپنے جن احسانات کا تذکرہ کیا اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو احسان فروشی کا طعنہ دیتے ہوئے ایک آدمی کے قتل کا الزام لگایا، اس کا جواب دیتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جہاں تک قتل کے الزام کا تعلق ہے وہ مجھ سے اس وقت سرزد ہوا جب میں ضالین میں سے تھا۔ ضالین، ضال کی جمع ہے۔ عام طور پر اس کا ترجمہ گمراہ کیا جاتا ہے کیونکہ ضلالت گمراہی کو کہتے ہیں، لیکن ہمیشہ ضلالت کا مفہوم گمراہی ہی نہیں ہوتا بلکہ عربی زبان میں کبھی اس لفظ کو ناواقفیت، نادانی، خطا، نسیان، نادانستگی وغیرہ معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک ضالسرگشتہ، جویائے راہ اور کھوئے ہوئے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ سورة الضحیٰ میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں بھی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قبطی کے قتل کا واقعہ جو مجھ سے سرزد ہوا اس کے پیچھے ارادہ فعل کام نہیں کررہا تھا، نہ میرے ہاتھ میں کوئی آلہ قتل تھا، میں نے اسے اس کے ظلم سے روکنے کے لیے ایک گھونسا مارا۔ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ شخص اس سے مرجائے گا۔ وہ کچھ ایسا بےڈھب پڑا کہ اس کی موت واقع ہوگئی۔ تو یہ جو کچھ ہوا، بیخبر ی اور بےخیالی میں ہوا۔ لیکن جب مجھے اندیشہ ہوا کہ میرے قتل کے منصوبے باندھے جارہے ہیں تو میں تم سے ڈر کر بھاگ نکلا۔ میں یقینا تمہارے ظلم سے ڈر کر بھاگا تھا۔ لیکن آج جبکہ میں لوٹ کے آیا ہوں تو میں ایک بھاگا ہوا مجرم نہیں بلکہ ایک ایسا شخص ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے علم و دانش اور پروانہ نبوت عطا فرمایا ہے۔ کیونکہ حکم ان دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور آپ کو رسول بنانے کا تذکرہ تو اس آیت میں صراحۃً کیا جارہا ہے۔ رہا تمہارا یہ احسان کہ میں تمہارے گھر میں پلا بڑھا ہوں تو اس سلسلے میں دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی یہ بات کہ مجھے اس احسان کا اعتراف ہے جو تمہارے اہل خانہ نے مجھ پر کیا۔ لیکن کیا یہ احسان اس ظلم عظیم کو جائز ثابت کرنے کے لیے کافی ہے جو تم بنی اسرائیل پر کر رہے ہو کہ تم نے ان کی آزادی سلب کر رکھی ہے اور تم ان سے وہ سلوک کررہے ہو جو کوئی مہذب شخص جانوروں پر کرنا بھی جائز نہیں سمجھتا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم مجھے اس بات کا جواب دے سکتے ہو کہ میں تمہارے محل میں کیونکر پہنچا۔ تم نے بنی اسرائیل پر مظالم کی انتہا کرتے ہوئے یہاں تک نوبت پہنچا دی کہ تم نے ان کے بچوں کو قتل کرنا شروع کردیا جبکہ دنیا کی کوئی مہذب قوم بدترین حالات میں بھی بچوں کو قتل کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ تمہارے اس ظلم سے بچوں کو بچانے کے لیے مائوں نے نہ جانے کیسے کیسے ظلم کے چرکے سہے۔ میری ماں نے بھی مجھے بچانے کے لیے صبر کی سِل اپنے سینے پر رکھی اور مجھے ٹوکرے میں ڈال کر دریائے نیل کے سپرد کردیا۔ اگر تم نے میری قوم پر یہ ظلم روا نہ رکھا ہوتا تو میں تمہارے گھر کیوں پہنچتا۔ کیا میری پرورش کے لیے میرا اپنا گھر موجود نہ تھا۔ اور کیا مجھے دودھ پلانے کے لیے میری ماں کی آغوش نہ تھی۔ اور کیا میرا بوجھ اٹھانے کے لیے میرے باپ کے کندھے سلامت نہ تھے۔ کیا اس ظلم کے بدلے میں تمہیں یہ بات زیب دیتی ہے کہ تم مجھ پر اپنا احسان جتلائو۔ یہ تو میرے اللہ کا کرم ہے کہ تم جس بچے سے ڈر کر بچوں کو قتل کروا رہے تھے اس نے اسی بچے کو تمہارے گھر میں رکھ کر تربیت کروایا۔ آج اسی رب العالمین کا نمائندہ بن کر میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔
Top