Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 20
قَالَ فَعَلْتُهَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَؕ
قَالَ : موسیٰ نے کہا فَعَلْتُهَآ : میں وہ کیا تھا اِذًا : جب وَّاَنَا : اور میں مِنَ : سے الضَّآلِّيْنَ : راہ سے بیخبر (جمع)
(موسیٰ نے) کہا میں نے اس وقت وہ کام کیا تھا (لیکن بےارادہ) اور مجھ سے بھول ہو گئی
موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو جواب دیا کہ ہاں جو کچھ مجھ سے بیخبر ی میں ہوگیا : 20۔ (ضال) ناواقف ‘ حیران ‘ بیخبر (ضلال) سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر اس کی (ضالون) ہے گمراہ ‘ بھولے ہوئے ‘ بہکے ہوئے ، (ضال) کے معنی جو گمراہی کے کئے جاتے ہیں وہ بھی اسی نسبت سے کئے جاتے ہیں اصل معنی اس کے بیخبر ی اور بھول کے ہیں اور ظاہر ہے کہ جو شخص کسی چیز کو گم کرتا ہے وہی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی لئے (ضال) کے معنی ” متلاشی “ کے بھی ہیں اور (ووجدک ضالا) میں یہی معنی مراد ہیں مطلب ہے کہ آپ گم گشتہ راہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے آپ کو ” متلاشی “ پایا اور تم کو سیدھا راستہ بتا دیا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو بغیر کسی جھجھک کے جواب دیا کہ ہاں ! بلاشبہ جو تو کہتا ہے یعنی قبطی کا قتل مجھ سے سرزد ہوا لیکن حقیقت یہ ہے میرا ارادہ اس کو قتل کرنے کا نہیں تھا بلکہ وہ جو زیادتی کر رہا تھا اس سے روکنے کا تھا لیکن وہ اپنی کارستانیوں کی وجہ سے اندر سے کھائی ہوئی لکڑی کی طرح کھوکھلا ہوچکا تھا کہ میں نے اس کو پیچھے ہٹانے کے لئے صرف ایک دھکا دیا لیکن وہ گرتے ہی ڈھیر ہوگیا میں تو اس کے اس طرح مرنے سے بالکل بیخبر تھا ‘ پھر نہ اس پر کوئی کلہاڑی چلائی اور نہ ڈنڈا مارا صرف ہاتھ سے اس کو پیچھے ہٹایا تھا اور ظاہر ہے کہ اس طرح سے تو آدمی کبھی نہیں مرا بس وہ تو ایک بہانہ ہی تھا کہ ہوگیا اور ظاہر ہے کہ بہانہ جب ہونے پر آتا ہے تو ایسے ہی ہوجاتا ہے ۔ فرعون نے دو باتیں کی تھیں جیسا کہ اوپر آپ نے پڑھا لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے اس کی دوسری بات کا جواب دیا اور پہلی بات کو مؤخر کردیا کیوں ؟ اس لئے کہ اس کا یہ دوسرا سوال زیادہ حساس تھا جس سے انار کی پھیلنے کا اندیشہ بھی ہوسکتا تھا اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت دانش مندی سے جس آگ کو وہ جلانا چاہتا تھا اس پر فورا پانی ڈال دیا اور پھر اس کے نتیجہ میں جو آپ نے کلفت اٹھائی ساتھ ہی اس کا بھی ذکر کردیا ۔
Top