Ruh-ul-Quran - An-Naml : 9
یٰمُوْسٰۤى اِنَّهٗۤ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُۙ
يٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اِنَّهٗٓ : حقیقت یہ اَنَا اللّٰهُ : میں اللہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اے موسیٰ ! یہ میں ہی ہوں، خدائے عزیزوحکیم
یٰـمُوْسٰٓی اِنَّـہٗٓ اَنَااللّٰہُ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ ۔ (النمل : 9) (اے موسیٰ ! یہ میں ہی ہوں، خدائے عزیزوحکیم۔ ) احتمالات کی وضاحت گزشتہ آیت میں بیان کردہ غیرمعمولی صورتحال سے جو اشتباہات پیدا ہوسکتے تھے اور جس طرح اجمالی انداز میں بات فرمائی گئی تھی اور جس میں کئی احتمالات ممکن تھے ان تمام پردوں کو ہٹاتے ہوئے فرمایا کہ میں ہی خدائے عزیزوحکیم ہوں، میری ہی آواز تم نے سنی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذاتی نام سے اپنا ذکر فرمایا اور اپنی دو صفات سے اپنا تعارف کرایا تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تبلیغ و دعوت کے کٹھن راستے پر چلتے ہوئے یہ اطمینان رہے کہ ان کی پشت پناہ ایک ایسی ذات ہے جو عزیز اور غالب ہے۔ البتہ وہ بعض دفعہ مخالفین کی گرفت میں تاخیر سے کام لیتا ہے۔ اور بعض دفعہ انھیں کھل کھیلنے کا موقع دیتا ہے۔ تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی اس سے بچ کے بھی جاسکتا ہے۔ البتہ گرفت میں تاخیر اور ڈھیل پہ ڈھیل دیتے چلے جانا یہ اس کی حکمت و رحمت کا تقاضا ہے تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے نبی کے سامنے ان دونوں صفات کی موجودگی ایک بہت بڑی ڈھارس کا کام دیتی ہے۔ اور لوگوں کی بےاعتنائیاں بلکہ بار بار حدود سے تجاوز اس کے حوصلے کو شکست دینے سے عاجز رہتا ہے۔
Top