Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 69
وَ رَبُّكَ یَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو تُكِنُّ : چھپا ہے صُدُوْرُهُمْ : ان کے سینے وَمَا : اور جو يُعْلِنُوْنَ : وہ ظاہر کرتے ہیں
اور آپ کا رب جانتا ہے جو کچھ کہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں
وَرَبُّکَ یَعْلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُوْرُھُمْ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ۔ (القصص : 69) (اور آپ کا رب جانتا ہے جو کچھ کہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں۔ ) صفتِ علم سے استدلال جس سیاق کلام میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دنیا میں کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں نے فلاں معاملے میں جو رائے اختیار کر رکھی ہے مجھے آج تک اس سے مختلف ایسی کوئی دلیل نہیں مل سکی کہ جس سے میں اپنی رائے کو بدلنے پر مجبور ہوجاتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ میری رائے کی اصابت میں کوئی شبہ نہیں، لیکن اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ الفاظ کے طوطے مینا اڑانا اور سخن سازی سے اپنی نیت پر پردہ ڈال دینا آج تو ممکن ہے لیکن قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری ہوگی تو وہ صرف زبان سے نکلنے والے الفاظ ہی نہیں دیکھے گا بلکہ اس کی نگاہ نیتوں اور دل کے ارادوں پر بھی ہوگی۔ وہاں نہ نیتیں چھپ سکیں گی نہ ارادوں پر پردہ ڈالا جاسکے گا۔ اس لیے جسے اپنی عاقبت عزیز ہے اسے اسی دنیا میں آخرت کی حاضری کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔
Top