Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 100
قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ شَهِیْدًا١ۚ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ١ۙ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
قُلْ : آپ فرمادیں كَفٰي : کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان شَهِيْدًا ۚ : گواہ يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے بِالْبَاطِلِ : باطل پر وَكَفَرُوْا : اور وہ منکر ہوئے بِاللّٰهِ ۙ : اللہ کے اُولٰٓئِكَ : وہی ہیں هُمُ الْخٰسِرُوْنَ : وہ گھاٹا پانے والے
کہہ دیجیے ! میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہی کے لیے کافی ہے، وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، جو لوگ باطل پر ایمان لائے اور جنھوں نے اللہ کا انکار کیا وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں
قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ بَیْنِیْ وَبَیْنَـکُمْ شَہِیْدًا ج یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَکَفَرُوْا بِاللّٰہِ لا اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ۔ (العنکبوت : 52) (کہہ دیجیے ! میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہی کے لیے کافی ہے، وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، جو لوگ باطل پر ایمان لائے اور جنھوں نے اللہ کا انکار کیا وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی اور مخالفین کو تنبیہ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی نبوت پر ایسے واضح دلائل کے بعد جیسے کہ قریبی آیات میں پیش کیے گئے ہیں مشرکینِ مکہ اگر ایمان لانے کی بجائے نشانیوں کا مطالبہ کرتے اور قسم قسم کے اعتراضات اٹھاتے ہیں تو آپ ان باتوں کی بالکل پرواہ نہ کریں، حقیقت یہ ہے کہ ان کے دل تسلیم کرچکے ہیں کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی کتاب ہے۔ رہے اعتراضات تو وہ تو محض ایک ڈوبنے والی کشتی کا آخری سہارا ہیں۔ گروہی عصبیت اپنی مصنوعی شریعت اور جاہلانہ رسم و رواج پر جمود کو بچانے کے لیے محض ایک شور مچایا جارہا ہے۔ ایسے لوگوں سے بحث مباحثہ کرنا بیکار ہے، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کیجیے۔ یہ اپنی سچائی کے ہزار دعوے کریں وہ ان کی نیتوں اور ان کے عزائم کو خوب جانتا ہے۔ قیامت کے دن ان کی نیتوں اور عزائم کے حوالے سے وہ فیصلہ کرے گا۔ البتہ ایک بات ان مخالفین کو یاد رکھنی چاہیے کہ اگر انھوں نے اپنی زندگی تباہ کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو یہ جانیں اور ان کا خدا جانے۔ لیکن ان کی ہمدردی کے لیے یہ کہنا بہت ضروری ہے کہ جو لوگ باطل پر جان بوجھ کر ایمان لائیں گے اور پیغمبر کی دلآویز دعوت اور دلائل سے بھرپور گفتگو کے بعد بھی وہ اللہ تعالیٰ کا انکار کریں گے تو انھیں اس بارے میں یکسو رہنا چاہیے کہ یہی لوگ آخرت میں نقصان اٹھانے والے نامراد ہیں۔
Top