Ruh-ul-Quran - Al-Haaqqa : 12
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَ تُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ١ؕ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : وہ جو کہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا سَتُغْلَبُوْنَ : عنقریب تم مغلوب ہوگے وَتُحْشَرُوْنَ : اور تم ہانکے جاؤگے اِلٰى : طرف جَهَنَّمَ : جہنم وَبِئْسَ : اور برا الْمِهَادُ : ٹھکانہ
اے پیغمبر ! کہہ دیجیے، ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا ہے کہ قریب ہے وہ وقت کہ تم مغلوب ہوجائو گے اور جہنم کی طرف ہانکے جائو گے اور وہ جہنم بہت ہی برا ٹھکانہ ہے
قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَ تُحْشَرُوْنَ اِلٰی جَہَنَّمَط وَبِئْسَ الْمِہَادُ ۔ (اے پیغمبر ! کہہ دیجیے، ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا ہے کہ قریب ہے وہ وقت کہ تم مغلوب ہوجاؤ گے اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ جہنم بہت ہی برا ٹھکانہ ہے) (12) یہود کو وارننگ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے یوں تو ہر طرح کے کافر مراد ہیں ‘ لیکن یہاں معلوم ہوتا ہے خطاب بطور خاص یہود سے ہے۔ اوس و خزرج کے تمام لوگ ان آیات کے نزول تک ‘ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ لیکن اکثریت چونکہ مسلمان ہوچکی تھی اس لیے ان کی طرف سے کسی بڑی رکاوٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ان میں جو منافقین تھے وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو کچھ بھی کرتے تھے اس کی ڈور ہمیشہ یہود کی طرف سے ہلتی تھی ‘ یہ لوگ انہی کے آلہ کار اور انہی کے زیر اثر تھے ‘ اس لیے براہ راست یہود سے خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ تم دشمنی میں حد سے بڑھ رہے ہو اور تمہاری سازشیں روز بروز ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہیں۔ جہاں تک تمہیں سمجھانے کا تعلق ہے ‘ اس میں کوئی کمی نہیں رہی۔ تمہارے ایک ایک سوال کا کافی و شافی جواب دیا گیا ہے۔ اس لیے اب تمہیں وارننگ دی جا رہی ہے کہ تم نے اگر اپنا رویہ نہ بدلا تو وہ وقت دور نہیں جب تم مغلوب ہوجاؤ گے۔ اسلام اپنے غلبہ عمومی کی طرف قدم قدم بڑھ رہا ہے۔ تاریخ اور سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ و سلم نے جنگ بدر کے بعد جب یہود کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور انھیں سمجھایا کہ تمہارے لیے عافیت کا راستہ یہی ہے کہ تم اسلام کے دامن میں آجاؤ ‘ لیکن ان میں سے بطور خاص بنو قینقاع نے کہا کہ محمد ﷺ ! جنگ بدر کی فتح نے تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کردیا ہے۔ مکہ والے کیا جانیں کہ لڑنا کیا ہوتا ہے، اس لیے تم نے ان کو مار لیا ‘ لیکن جب ہم سے واسطہ پڑے گا تو ہم تمہیں بتادیں گے کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ‘ کہ تم سرکشی اور تمرد کا رویہ چھوڑ دو ‘ لیکن اگر تم اس سے باز نہیں آتے تو پھر یاد رکھو چند دنوں کی بات ہے ‘ جب تم مسلمانوں کے سامنے مفتوح اور مغلوب ہو کر ذلت کی تصویر بنے کھڑے ہو گے۔ اس طرح سے تم دنیا ہی میں اپنے انجام کو پہنچ جاؤ گے۔ لیکن یاد رکھو ! دنیا کی یہ سزا اصل سزا نہیں۔ اصل سزا تو تمہیں قیامت کے دن ملے گی ‘ جب تم جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جس وقت قرآن کریم اسلام کے غلبے اور یہود کی مغلوبیت کی پیش گوئی کر رہا تھا اس وقت مسلمانوں کی قوت اس قدر زیادہ نہیں تھی کہ وہ یہود پہ غالب آسکتے۔ ان کا ایک ایک قبیلہ الگ الگ بھی مسلمانوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کافی تھا۔ بنوقینقاع کی افرادی قوت تنہا بھی مسلمانوں سے زیادہ تھی اور وسائل کے اعتبار سے تو مسلمانوں کو ان سے کوئی نسبت ہی نہ تھی۔ لیکن قرآن کریم حالات کے علی الرغم یہ دھمکی دے رہا ہے کہ عنقریب مغلوب ہونا تمہارا مقدر ہے، چناچہ ایسا ہی ہوا۔ بنوقینقاع کا حضور ﷺ نے محاصرہ کیا ‘ انھوں نے شروع شروع میں تو بہت بدزبانی اور ہیکڑی سے کام لیا۔ لیکن چند دنوں کے سخت محاصرے کے بعد دماغ سیدھا ہوگیا۔ عبداللہ بن ابی ٔ کے انتہائی اصرار کی وجہ سے ان کی جانیں تو بچ گئیں ‘ لیکن انھیں اپنے قلعوں ‘ اپنے کاروبار اور اپنے باغوں سے دستبردار ہو کر بےکسی اور بےبسی کی تصویر بن کر مدینہ سے شہر بدر ہونا پڑا۔ اس لحاظ سے یہ آیت کریمہ قرآن کریم کی حقانیت کی ایک واضح دلیل ہے۔ دنیا میں تو ان کو یہ سزا ملی کہ وہ شہر سے نکال دیے گئے اور جا کر خیبر میں آباد ہوگئے ‘ لیکن جو آخرت میں سزا ملے گی وہ اس سے بدرجہا زیادہ ہے کہ انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بننا پڑے گا۔ یہود نے اپنے مصنوعی اور جاہلانہ تصورات کی وجہ سے جہنم کو ایک بےضرر سی چیز سمجھ رکھا تھا اور یہ عقیدہ بنا رکھا تھا کہ جہنم کی آگ ہمیں نہیں چھوئے گی اور اگر ہمیں عجل پرستی کی سزا کے طور پر چالیس دن جہنم میں رہنا بھی پڑا تو یہ محض ایک ضابطے کی کارروائی ہوگی اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس لیے آیت کے آخر میں ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے وَبِئْسَ الْمِہَادُ (جہنم بہت ہی برا ٹھکانہ ہے) مِہَاداصل میں ” بستر اور فرش “ کو کہتے ہیں۔ انسان کی تکلیف اور بےچینی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو اسے بستر بھی کانٹوں کا معلوم ہوتا ہے۔ بستر پر بجائے آرام ملنے کے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک عذاب دیا جا رہا ہے۔ اور ” بِئْس “ کے لفظ نے تو شدت عذاب کو انتہا تک پہنچا دیا اور قیامت کی ہولناکیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے عذاب کی شدت کو شائد الفاظ ادا نہیں کرسکتے۔ یہود نے اللہ کی رحمتیں دیکھیں ‘ اس کی طرف سے مسلسل ڈھیل ملنے کے باعث یہ لوگ فریب خوردگی کا شکار ہوگئے تھے۔ اس لیے اس لفظ سے انھیں تنبیہ کی گئی ہے ؎ نہ جا اس کے تحمل پر کہ بےڈھب ہے گرفت اس کی ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
Top