Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 163
هُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ
ھُمْ : وہ۔ ان دَرَجٰتٌ : درجے عِنْدَ : پاس اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌ : دیکھنے ولا بِمَا : جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اللہ کے نزدیک لوگوں کے مرتبے ہیں اور جیسے کچھ ان کے اعمال ہیں وہ انہیں دیکھ رہا ہے
سچوں کی سچائی ظاہر ہوگی تو جھوٹوں کا جھوٹ بھی کھل جائے گا : 300 : رضائے الٰہی کی اتباع کرنے والا اور اللہ کی ناراضگی لے کر لوٹنے والے مختلف درجات رکھتے ہیں اور ان کے مراتب بھی مختلف ہیں۔ ثواب و عذاب میں اول و دوم کا بڑا تفاوت ہے گویا اس طرح اس حقیقت کی طرف اشارہ کردیا کہ دنیا میں سچے انسان کی زندگی جھوٹے انسان سے اپنی ہر بات میں اس درجہ مختلف ہوتی ہے کہ ممکن ہی نہیں کسی طرح کا دھوکا ہو سکے۔ ایک بدکار آدمی بناوٹ سے اپنے آپ کو کتنا ہی نیک ظاہر کرے لیکن بناوٹ ہے کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور کر بیٹھے گا کہ اصلیت آشکار ہوجائے گی۔ اس لئے قرآن کریم نے دونوں کا تقابل بہت سے مقامات پر کر کے حقیقت کو بالکل واضح کردیا ہے : ” اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے کھول دیا ہے اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کو ان باتوں سے کچھ بھی سروکار نہیں ؟ تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جن دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہوگئے اور وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ “ (الزمر : 39:22) ایک جگہ ارشاد ہے : ” کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے ہیں اور ان کو جو زمین میں فساد مچانے والے ہیں یکساں کردیں ؟ کیا متقین کو ہم فاسقوں جیسا کردیں ؟ “ کیا ایسا ممکن ہے ؟ ہرگز نہیں۔ ایک جگہ ارشاد لٰہی ہے کہ : ” بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف راستہ پر ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کے برے اعمال اس کی نگاہ میں خوشنما بنا دئیے گئے ہیں۔ اور وہ اپنی نفسانی خوہشوں کے پیچھے چل رہا ہے۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے پیغمبر اسلام ! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ دونوں آدمی برابر ہوجائیں ؟ وہ جو یہ بات جان گیا ہے کہ جو بات تجھ پر تیرے پروردگار کی جانب سے اتری ہے حق ہے اور وہ جو اندھا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ وہی لوگ سمجھتے بوجھتے ہیں جو دانش مند ہیں (الرعد : 13:19) ” لیکن آج کل دانشمند ان ہی کو سمجھا جاتا ہے جو عقل سے کورے ہیں۔ “ ایک جگہ اور ارشاد فرمایا : ” کیا وہ شخص جو منہ کے بل گرتے پڑتے چلتا ہو وہ سیدھی راہ پر ہے یا وہ شخص جو سیدھا ہموار راستہ پر چلا جا رہا ہو۔ “ (الملک : 67:22) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” کیا وہ شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور اس کی خوشنودی پر رکھی یا وہ جس ایک کھائی کے گرتے ہوئے کنارے پر اپنی عمارت کی بنیاد رکھی اور وہ مع اپنے مکین کے آتشیں دوزخ میں جا گری ؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ انہیں سعادت کی راہ نہیں دکھاتا جو ظلم کا شیوہ اختیار کرتے ہیں۔ “ (التوبہ : 9:109) ایک جگہ اور ارشاد فرمایا : ” پھر دیکھو جو لوگ اپنے پروردگار کی جانب سے ایک روشن دلیل رکھتے ہوں اور اس کے ساتھی ہی ایک گواہ بھی اس کی طرف سے آگیا ہو یعنی قرآن کریم اور اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب بھی پیشوائی کرتی ہوئی اور سرتاپا رحمت آچکی ہو۔ یہ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہوں اور گروہوں میں سے جو کوئی اس کا منکر ہوا تو یقین کرو آگ ہی وہ ٹھکانہ ہے جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ “ (ھود : 11:17) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” کیا جو لوگ برائیاں کرسکتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کے برابر کردیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ ان سب کا مرنا جینا یکساں ہوجائے۔ کیا ہی برا حکم ہے جو وہ لگاتے ہیں۔ “ (الجاثیہ : 45:21) ایک جگہ اور ارشاد فرمایا : ” کیا ہم فرمانبرداروں کو اور نافرمانوں کو برابر کردیں گے۔ تم کو کیا ہوا تم کیسا فیصلہ کرتے ہو ؟ “ (القلم : 68:35 ، 21) ایک جگہ اور ارشاد فرمایا : ” بھلا جو صاحب ایمان ہے تو کیا وہ اس جیسا ہے جو نافرمان ہے ؟ نہیں مومن و فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ “ (السجدہ : 32:18) ایک جگہ فرمایا : ” کیا تم لوگوں نے یہ ٹھہرا رکھا ہے کہ حاجیوں کے لئے سبیل لگا دینی اور مسجد حرام کو آباد رکھان اس درجہ کا کام ہے جیسا اس شخص کا کام جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا ؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ ظلم کرنے والوں پر کامیابی کی راہ نہیں کھولتا۔ “ (التوبہ : 9:19) مزید تفصیل کے لئے درج ذیل دی گئی سورتوں کی نشان کردہ آیات کا مطالعہ کرو۔ (4:95) ، (57:9 ، 10) ، (47:14) ، (5:100) ، (41:34) ، (40:58) ، (39:29) ، (30:28) ، (12:71) ، (59:20) ، (39:9) ، (6:50) ، (13:16) ، (3:113) ، (35:12) ، (35:21) ، (35:22 ، 23) ، (10:28) ۔ تفسیر عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ کی آیت 115 ، ملاحظہ کریں۔
Top