Tafseer-al-Kitaab - Al-Hajj : 67
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ
لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا مَنْسَكًا : ایک طریق عبادت هُمْ : وہ نَاسِكُوْهُ : اس پر بندگی کرتے ہیں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ : سو چاہیے کہ تم سے نہ جھگڑا کریں فِي الْاَمْرِ : اس معاملہ میں وَادْعُ : اور بلاؤ اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف اِنَّكَ : بیشک تم لَعَلٰى : پر هُدًى : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
(اے پیغمبر، ) ہم نے ہر امت کے لئے (عبادت کا) ایک طور طریقہ ٹھہرا دیا ہے، جس پر وہ چل رہی ہے۔ پس ان لوگوں کو چاہئے کہ (اس) معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ اور تم اپنے رب کی طرف لوگوں کو بلائے چلے جاؤ۔ یقینا تم سیدھے راستے پر (گامزن) ہو۔
[47] اس آیت میں اس اصل عظیم کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دین ہمیشہ سے ایک رہا ہے۔ البتہ '' مناسک '' یعنی عبادت کے طور طریقے میں اختلاف ہوا کیونکہ ہر عہد میں اور ہر قوم کی حالت یکساں نہ تھی۔ جس کی جو حالت تھی اس کے مطابق ایک طور طریقہ اسے دے دیا۔ پس طالب حق کو چاہئے کہ سب سے پہلے اصل کو دیکھے نہ کہ فرع کے پیچھے پڑجائے۔ لہذا اس بارے میں لوگوں کو تم سے نزاع کرنے کا حق نہیں۔ جس بات پر انھیں غور کرنا چاہئے وہ تو یہ ہے کہ اصل دعوت کیا ہے۔
Top