Ruh-ul-Quran - Al-Ghaafir : 39
یٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ١٘ وَّ اِنَّ الْاٰخِرَةَ هِیَ دَارُ الْقَرَارِ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی مَتَاعٌ ۡ : تھوڑا (فائدہ) وَّاِنَّ الْاٰخِرَةَ : اور بیشک آخرت هِىَ : یہ دَارُ الْقَرَارِ : (ہمیشہ) رہنے کا گھر
اے میری قوم ! یہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ متاع ہے اور ہمیشہ کے قیام کی جگہ آخرت ہی ہے
یٰـقَوْمِ اِنَّمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ ز وَّاِنَّ الْاٰخِرَۃَ ھِیَ دَارُالْقَرَارِ ۔ (المؤمن : 39) (اے میری قوم ! یہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ متاع ہے اور ہمیشہ کے قیام کی جگہ آخرت ہی ہے۔ ) دنیادار کا اصل مرض اس آیت میں جو بات ارشاد فرمائی گئی ہے یوں تو اس کا مخاطب ہر شخص ہے کیونکہ دنیا کا کوئی شخص ہی ایسا ہوگا جو دنیا کی چند روزہ زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح نہیں دیتا۔ لیکن جن لوگوں میں یہ بیماری سب سے زیادہ پائی جاتی ہے اور وہ توجہ دلانے پر بھی اپنے رویئے میں کبھی تبدیلی پیدا نہیں کرتے، وہ بادشاہ کے اہل دربار، حاشیہ بردار اور اس کے عمائدینِ سلطنت ہیں وہ علم و دانش کے حامل ہونے کے باوجود زندگی کے مقاصد کے تعین میں سب سے زیادہ کوتاہ فکر اور کوتاہ ہمت واقع ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی کا ہدف حیات چند روزہ کا عیش و آرام ہوتا ہے۔ اور یہ چیز انھیں چونکہ حاکم وقت کی ہاں میں ہاں ملانے سے ملتی ہے اس لیے وہ حاکم وقت کو ناراض کرنے یا اس کی کسی بات کی مخالفت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس لیے بطورخاص ان سے خطاب کرتے ہوئے مردِمومن نے کہا کہ یہ دنیا کی زندگی متاع چند روزہ کے سوا کچھ نہیں۔ اصل زندگی وہ ہے جو آخرت میں ملے گی، جس کے عیش و آرام میں کبھی خلل واقع نہیں ہوگا۔ اور جس کی کسی نعمت کو کبھی زوال نہیں ہوگا۔ تو اس کے مقابلے میں اگر یہ چند روزہ زندگی کو ترجیح دیتے ہیں تو یہ وہ بھول ہے جس کا کوئی تدارک نہیں ہوسکتا۔ دارِ دنیا کی سجاوٹ پر نہ جا آخرت میں اپنا اصلی گھر سجا
Top