Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaafir : 39
یٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ١٘ وَّ اِنَّ الْاٰخِرَةَ هِیَ دَارُ الْقَرَارِ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی مَتَاعٌ ۡ : تھوڑا (فائدہ) وَّاِنَّ الْاٰخِرَةَ : اور بیشک آخرت هِىَ : یہ دَارُ الْقَرَارِ : (ہمیشہ) رہنے کا گھر
اے میری قوم ! بلاشبہ یہ دنیا کی زندگی تو (چند روزہ) فائدہ اٹھا لینے کی چیز ہے اور بلاشبہ آخرت ہی (در اصل) قرار و قیام کی (صحیح) جگہ ہے
اے میری قوم کے لوگو ! یہ دنیا چار روزہ ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے کی جگہ 39۔ اس مرد مومن نے فرعون کی ایک ایک بات کا باقاعدہ دلیل سے رد کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر تک نہ کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی ساری تعلیم کا خلاصہ بھی بیان کردیا۔ قابل غور امر ہے کہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کا نام تک آخر کیوں نہ لیا ؟ اس لیے کہ وہ قوم کے لوگوں اور فرعون کو چڑ نہیں دلانا چاہتا تھا بلکہ پیغام پہنچانا چاہتا تھا اور جن حالات میں وہ یہ بیان دے رہا تھا ان حالات میں جو نقصان چڑ سے کسیف کو ہو سکتا ہے اس سے بھی اپنی قوم کو بچانا چاہتا تھا اور یہ علامت ہے اس بات کی کہ وہ صحیح معنوں میں قوم کا خیرخواہ تھا اور چاہتا تھا کہ میرے قوم ہدایت پائے اور اس دنیا میں بھی کامیاب ہو اور اس کی آخرت بھی سنور جائے اس کو اپنی چودھراہٹ اور ناموری کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی موسیٰ (علیہ السلام) پر وہ کسی طرح کا احسان کرنا چاہتا تھا اس کے پیش نظر بلاشبہ اصلاح حال تھی نہ کہ اپنے نام کی نمود ونمائش اور نہ ہی وہ اپنی قوم کا کوئی لیڈر بننا چاہتا تھا کہ ایسا انداز اختیار کرتا جس میں اس کا نام بھی روشن ہوتا وہ تو عنداللہ اپنے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا اس لیے اس نے قوم کو آخرت کی زندگی کا درس دیا اور اس کی طرف توجہ دلائی جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کو فرعون کی مخالفت کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ اپنی قوم کو سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرنا مطلوب تھا اس لیے اس نے وہی طریقہ اختیار کیا جو انبیاء کرام اور رسل عظام کا طریقہ تبلیغ ہے اور قوم کو آخرت کی طرف توجہ دلائی تاکہ ان کو آخرت کی یادہانی ہوجائے۔
Top