Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 53
اَتَوَاصَوْا بِهٖ١ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَۚ
اَتَوَاصَوْا بِهٖ ۚ : کیا وہ ایک دوسرے کو اس کے س اتھ نصیحت کر گئے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ قَوْمٌ طَاغُوْنَ : لوگ ہیں سرکش
کیا انھوں نے آپس میں ایک دوسرے کو اس کی وصیت کر چھوڑی ہے، نہیں بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں
اَتَوَاصَوْا بِہٖ ج بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ ۔ (الذریٰت : 53) (کیا انھوں نے آپس میں ایک دوسرے کو اس کی وصیت کر چھوڑی ہے، نہیں بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔ ) رسولوں کی مخالفت میں یکسانی کا سبب گزشتہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے مخالفین کی روش کی جس یکسانی کا ذکر فرمایا گیا ہے اس پر اظہارِتعجب کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا ان لوگوں نے ایک دوسرے کو یہ نصیحت کر رکھی ہے کہ جب بھی ان کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول آئے تو اس کی مخالفت میں یہی رویہ اختیار کرنا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول بھی مختلف زمانوں میں آئے اور ان کی قوموں کا بھی ایک دوسرے سے کبھی کوئی تعلق نہ رہا۔ کسی نے کسی کو نہیں دیکھا اور کوئی دوسرے سے ملاقات نہ کرسکا۔ باایں ہمہ مخالفت میں ایک ہی جیسی باتیں اور ایک ہی جیسا رویہ، آخر اس کا سبب کیا ہے ؟ پروردگار نے ان کے اس رویئے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ درحقیقت ان کے اس رویئے میں یکسانی، ان کی طبیعتوں کے بگاڑ میں یکسانی کا نتیجہ ہے۔ ایسے لوگ ہر دور میں اللہ تعالیٰ کی بندگی سے آزاد رہ کر اور جواب دہی سے بےخوف ہو کر شتر بےمہار کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی خواہشات پر کوئی قدغن برداشت نہیں کرتے۔ من چاہی زندگی ان کا اصل اسلوب ہے۔ اور باہمی مشورے سے اگر وہ کچھ اصول طے کرتے بھی ہیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کی بندگی نہیں بلکہ انسانوں کی بندگی کا شعور شامل ہوتا ہے۔ اور یہ انسان کی ایسی کمزوری ہے جس میں بگڑے ہوئے انسان ہمیشہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ رہے ہیں۔ برائی میں ایک لذت ہے، خواہش کی پیروی انسان کے سفلی جذبات کو آسان کردیتی ہے۔ پیسے کی ہوس، آرام و راحت کی طلب اور بےمحنت عزت کی خواہش، ہمیشہ ہَوائے نفس کی منزل رہی ہیں۔ جب کوئی شخص اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی بندگی، اخلاق کی پابندی، حقوق کا شعور اور ایثار و قربانی کی تعلیم دیتا ہے تو اسے قبول کرنا انسان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ ان چیزوں کا نمائندہ بن کر جو اس کے لیے ہَوائے نفس نے منزل بنا رکھی ہیں ان چیزوں کا راستہ روکنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس میں چونکہ ہر دور کا انسان شریک رہا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی مخالفت ہر دور میں ایک ہی طریقے سے ہوتی رہی ہے۔ عاد وثمود میں بھی یہی بیماری تھی اور قریش میں بھی یہی کمزوری ہے۔ وہ دونوں اپنی کمزوریوں میں یکساں ہیں حالانکہ ایک دوسرے سے شناسا نہیں۔ آج ذرائع اور وسائل کی شکلیں تبدیل ہوئی ہیں لیکن ان کے محرکات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ظالم اگر کل تلوار سے ظلم کرتا تھا تو آج ٹینک، ہَوائی جہاز اور ہائیڈروجن بموں کا استعمال کرتا ہے۔ لیکن دونوں میں ظلم کے محرکات میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔ اسی طرح آج کا ملحد اپنے الحاد کے لیے دلائل کے خواہ کتنے ہی انبار لگاتا رہے اس کے اس راہ پر جانے کے محرکات ابوجہل اور ابولہب سے مختلف نہیں۔
Top