Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 52
كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌۚ
كَذٰلِكَ : اسی طرح مَآ اَتَى الَّذِيْنَ : نہیں آیا ان لوگوں کے پاس مِنْ قَبْلِهِمْ : جو ان سے پہلے تھے مِّنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا قَالُوْا : مگر انہوں نے کہا سَاحِرٌ : جادوگر اَوْ مَجْنُوْنٌ : یا مجنون
اسی طرح ہوتا رہا ہے کہ ان سے پہلے کی قوموں کے پاس جو رسول بھی آیا اس کو انھوں نے جادوگر یا دیوانہ ٹھہرایا
کَذٰلِکَ مَـآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْمَجْنُوْنٌ۔ (الذریٰت : 52) (اسی طرح ہوتا رہا ہے کہ ان سے پہلے کی قوموں کے پاس جو رسول بھی آیا اس کو انھوں نے جادوگر یا دیوانہ ٹھہرایا۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی اس میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ قریش اور دیگر مشرکین آپ کے بارے میں جو یا وہ گوئی کرتے ہیں اور کبھی آپ کو ساحر قرار دیتے ہیں اور کبھی مجنون، آپ اس پر دل گرفتہ نہ ہوں۔ یہ واقعہ پہلی دفعہ پیش نہیں آیا بلکہ رسالت کی پوری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی قوم کے پاس اللہ تعالیٰ کا رسول آیا اور اس نے اپنی قوم کو خبردار کیا کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کیا جاسکتا، وہی تمہارا خالق و معبود اور تمہاری قسمتوں کا مالک و مختار ہے۔ میں اس کی طرف سے تمہارے پاس رسول بن کر آیا ہوں۔ اس لیے میں جو بات کہتا ہوں وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کہتا ہوں۔ تو لوگوں نے کہا کہ اچھا اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہو تو ہمیں کوئی ایسی نشانی دکھائو جس سے یہ یقین ہوجائے کہ واقعی تمہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ چناچہ ان کی طلب پر جب رسول نے انھیں کچھ نشانیاں دکھائیں یعنی معجزات دکھائے تو انھوں نے شور مچا دیا کہ یہ جادوگر ہے جو اپنے جادو کے زور سے ہماری عقلوں کو مائوف کرنا چاہتا ہے۔ اور جب اس رسول نے انھیں یہ بتایا کہ تم دنیا میں غیرذمہ دار بنا کر نہیں بھیجے گئے، تمہیں اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور دیا ہے اور پھر وحی الٰہی کے ذریعے تمہیں حقیقت کا علم بخشا ہے۔ تمہاری یہ زندگی آخرت کی تیاری کے لیے ہے۔ اور آخرت میں تم نے اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے۔ تمہارا کارنامہ ٔ حیات مرنے کے بعد ختم نہیں ہوجائے گا بلکہ تمہیں ازسرنو زندہ کرکے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا۔ تو یہ لوگ چیخ اٹھے کہ یہ پاگل ہے اور اس کی عقل ماری گئی ہے۔ یہی رویہ قریش اور دوسرے مشرکین نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ اختیار کر رکھا تھا۔ اس لیے آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے کہ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے، آپ اس پر پریشان ہونے کی بجائے صبر سے کام لیجئے اور حالات کا مقابلہ کیجیے جس طرح آپ سے پہلے اولوالعزم رسولوں نے کیا۔ کیونکہ : زمانہ یونہی اپنے محسنوں کو تنگ کرتا ہے وہ درس صلح دیتے ہیں یہ ان سے جنگ کرتا ہے
Top