Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 53
اَتَوَاصَوْا بِهٖ١ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَۚ
اَتَوَاصَوْا بِهٖ ۚ : کیا وہ ایک دوسرے کو اس کے س اتھ نصیحت کر گئے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ قَوْمٌ طَاغُوْنَ : لوگ ہیں سرکش
کیا ان لوگوں نے آپس میں اس بات پر کوئی سمجھوتہ کرلیا تھا ؟ (نہیں) بلکہ یہ سب ہی سرکش لوگ ہیں
[ 54] منکرین کے حال پر اظہار تعجب : سو ارشاد فرمایا گیا اور اسلوب استفہام واستعجاب میں ارشاد فرمایا گیا کہ کیا ان لوگوں نے اس بات پر آپس میں کوئی سمجھوتہ کرلیا تھا۔ یہ استفہام تعجب و انکار کے لئے ہے، کہ ایسے نہیں ہوا، اور نہ ایسے ہوسکتا ہے کہ ان سب لوگوں نے باہم کوئی سمجھوتہ کرکے ایک ہی بات آپس میں طے کرلی ہو، کہ ان سب کے درمیان تو ہزاروں سال کا فاصلہ اور وقفہ ہے، سو اس کا اصل سبب یہ نہیں، بلکہ وہ ہے جو اس کے بعد ارشاد فرمایا جا رہا ہے، یعنی ان کی طغیانی اور سرکشی، جس کی بناء پر کل کے وہ منکر بھی نورحق و ہدایت سے محروم رہے اور آج کے یہ منکر و سرکش بھی اس سے محروم ہیں، والعیاذ باللّٰہ العظیم، سو سرکشی کی اس بری خصلت کی بناء پر جو کہ آگے کئی برائیوں کا منبع اور ان کی جڑ ہے، سرکش لوگوں نے ہمیشہ حق اور اہل حق کی تکذیب کی اور انہوں نے راہ حق و صواب سے ابحراف کیا، کل کے اور آج کے سرکش سب اس میں شریک ہیں، اور اسی بناء پر انہوں نے دعوت حق کا انکار کیا اور اس سے روگردانی کی اور تکذیب و انکار حق کے جرم کا ارتکاب کیا، جو کہ جرموں کا جرم، اور محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ [ 55] بغاوت و سرکشی، شر و فساد کی جڑ بنیاد، والعیاذ باللّٰہ العظیم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ نہیں بلکہ یہ سب لوگ باغی اور سرکش لوگ تھے۔ یعنی ایسے لوگ جو پھلانگ جاتے ہیں عبدیت و بندگی کی ان حدود کو جو ان کے خالق ومالک نے ان کے لئے مقرر فرما رکھی ہیں۔ اور جو انسان کی طبعیت و فطرت کے عین مطابق، عقل و نقل کا تقاضا، اور اس کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کی ضامن اور کفیل ہیں مگر انہوں نے اپنی سرکشی اور بدبختی کی بناء پر ان کا انکار کیا۔ سو بغاوت و سرکشی خرابیوں کی خرابی اور ہلاکت و تباہی کی جڑ بنیاد ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اپنی اس سرکشی کی بناء پر یہ لوگ حق کے آگے جھکنے کیلئے تیار نہ ہوئے اور انہوں نے حق کا جھٹلا کر اپنے آپ کو دارین کے خسارے میں مبتلا کیا، اور حضرات انبیاء و رسل کی دعوت کو قبول کرکے اپنے لئے سعادت دارین سے سرفرازی کا سامان کرنے کی بجائے انہوں نے الٹا ان قدسی صفت ہستیوں کو ساحر اور مجنون کہا اور اس طرح انہوں نے اپنی شقاوت بدبختی کی سیاہی کو اور گہرا اور گاڑھا کردیا۔ اور اس حد تک کہ ان کو اس کا کوئی شعور و احساس ہی نہیں جو کہ محرومیوں کی محرومی ہے سو اللہ پاک کے رسول پر ایمان اور ان کی اطاعت و اتباع ہی سلامتی کی راہ ہے۔ جب کہ اس سے اعراض و انحراف باعث ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، سبحانہ و تعالیٰ ۔
Top