Ruh-ul-Quran - An-Najm : 24
اَمْ لِلْاِنْسَانِ مَا تَمَنّٰى٘ۖ
اَمْ لِلْاِنْسَانِ : یا انسان کے لیے ہے مَا تَمَنّٰى : جو وہ تمنا کرے
کیا انسان کے لیے وہی حق ہے جس کی وہ تمنا کرے
اَمْ لِلْاِنْسَانِ مَاتَمَنّٰی۔ فَلِلّٰہِ الْاٰخِرَۃُ وَالْاُوْلٰی۔ (النجم : 24، 25) (کیا انسان کے لیے وہی حق ہے جس کی وہ تمنا کرے۔ سو یاد رکھو کہ آخرت اور دنیا اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ ) ایک اہم حقیقت کا اظہار اس آیت کریمہ میں نہایت اختصار سے ایک اہم حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اس کی اپنی مرضی سے نہیں ہوتی، اس کی شکل و صورت میں اس کے اختیار کو دخل نہیں، وہ اپنی قسمت اپنی مرضی سے نہیں بناتا، دنیا میں اسے مکمل طور پر ہر چیز کو حاصل کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ اسی طرح اسے اس بات کا بھی اختیار نہیں کہ وہ جسے چاہے حق بنا دے اور جسے چاہے باطل ٹھہرا دے۔ جسے چاہے حلال قرار دے دے اور جسے چاہے حرام کردے۔ جس طرح اس کی دنیوی زندگی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اسی طرح اسے زندگی گزارنے کے لیے شریعت دینا، ایک آئین مہیا کرنا، آدابِ زندگی طے کرنا بھی اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ انسان کی خرابی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ جو بات میری خواہشِ نفس تقاضا کرے گی وہی میرے لیے حق ہوگا۔ حالانکہ انسان کو عقل معقولات میں استعمال کرنے کے لیے دی گئی ہے۔ اور احساس محسوسات میں استعمال کرنے کے لیے۔ لیکن جن چیزوں کا تعلق اللہ تعالیٰ کی رضا مندی یا ناراضی سے ہے اور جن کاموں سے آخرت بنتی یا بگڑتی ہے یا جن امور کا تعلق برزخی یا اخری زندگی سے ہے اور جو معاملات عالم غیب سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ نظام اخلاق جس سے انسانیت کی تعمیر ہوتی ہے اور فوزوفلاح کے وہ اصول جن سے انفرادی اور اجتماعی زندگی کامیاب و کامران ہوتی ہے، انھیں طے کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ ان کی حقیقت کو صرف وہ ذات جانتی ہے اور وہی اس کے لیے ہدایت بھی دے سکتی ہے جس نے انسانوں کو پیدا کیا اور جو دنیا اور آخرت کی مالک ہے۔ دنیا کے مالک ہونے کی وجہ سے وہ دنیا میں رہنے والی اپنی مخلوقات کو رہنمائی دینے کا حق رکھتی ہے۔ اور جن مخلوقات کو اس نے تکلیفِ شرعی سے گراں بار کیا ہے اس کے بارے میں آخرت میں جواب طلبی کا حق بھی رکھتی ہے۔
Top