Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 32
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ١ؕ قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں مَنْ : کس حَرَّمَ : حرام کیا زِيْنَةَ اللّٰهِ : اللہ کی زینت الَّتِيْٓ : جو کہ اَخْرَجَ : اس نے نکالی لِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں کے لیے وَالطَّيِّبٰتِ : اور پاک مِنَ : سے الرِّزْقِ : رزق قُلْ : فرمادیں هِىَ : یہ لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے فِي الْحَيٰوةِ : زندگی میں الدُّنْيَا : دنیا خَالِصَةً : خالص طور پر يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن كَذٰلِكَ : اسی طرح نُفَصِّلُ : ہم کھول کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں لِقَوْمٍ : گروہ کے لیے يَّعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں
اے نبی ﷺ ان سے کہو کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کردیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کیلئے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں ؟ کہو ‘ یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لئے ہیں ‘ اور قیامت کے روز تو خالصتا انہیں کے لئے ہوں گی ۔ اس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھنے والے ہیں ۔
آیت ” کَذَلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (32) ” اس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھنے والے ہیں ۔ “ اور جو لوگ اس دین کی حقیقت کو سمجھتے ہیں وہی اس بیان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ رہی وہ چیز جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے تو اگر اس کا تعلق لباس سے ہے تو بھی وہ صحت مند لباس نہیں ہے ۔ اگر اس کا تعلق خوراک واسکاک سے ہے تو وہ طیب نہیں ہے ماسوائے اسراف اور کبروغرور کے ۔ حرام تو وہ چیزیں ہیں جن کا ارتکاب وہ رات دن کر رہے ہیں۔ آیت ” قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِکُواْ بِاللّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَاناً وَأَن تَقُولُواْ عَلَی اللّہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ (33) اے نبی ﷺ ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں : بےشرمی کے کام ۔۔۔۔۔۔ خواہ کھلے ہوں یا چھپے ۔۔۔۔۔ اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی ایسے کو شریک کرو جس کے لئے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی ‘ اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو ۔ (کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے) یہ ہیں وہ چیزیں جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ وہ فحش افعال جو حدود الہیہ سے متجاوز ہوں ۔ چاہے وہ ظاہر ہوں یا خفیہ ہوں ‘ (اثم) ہر معصیت کو کہتے ہیں ۔ (بغی بغیر الحق) وہ ظلم جو حق و انصاف کے خلاف ہو ‘ اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا جبکہ شرک کی پست پر کوئی قوت دلیل نہیں ہوتی ۔ اس شرک میں وہ بھی شامل ہے جو عرب جاہلیت میں بھی تھی اور اس کے علاوہ بھی تمام جاہلیتوں میں تھی کہ قانون سازی میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کیا جائے حالانکہ قانون سازی اور شریعت سازی اللہ کی اہم خصوصیات میں سے ایک ہے ۔ اللہ کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کرنا جو خود نسبت کرنے والے کے علم میں بھی نہ ہوں ‘ مثلا وہ جن چیزوں کو حلال و حرام قرار دیتے تھے وہ ان کے علم میں نہ تھیں اور وہ بغیر علم ویقین کے ان کی نسبت اللہ کی طرف کرتے تھے ۔ یہ بجائے خود شرک ہے ۔ اس سلسلے میں کلبی نے ایک عجیب روایت نقل کی ہے کہ جب مشرکین کو یہ خطاب کیا گیا اور ان پر یہ گرفت کی گئی تو اس وقت ان کی حالت یہ تھی کہ ” جب مسلمانوں نے لباس پہن کر بیت اللہ کا طواف کیا تو مشرکین نے ان کو غیرت دلائی اور انہیں شرمندہ کرنے کی کوشش کی ۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر جاہلیت اپنے پیروکاروں کو کس حد تک پہنچا دیتی ہے۔ بعض لوگ ننگے بیت اللہ کا طواف کرتے تھے ۔ ان کی فطرت نے اپنی حالت بدل دی تھی اور ان کی فطرت اس حقیقی شرم وحیا سے محروم ہوچکی تھی جس کے بارے میں قصہ آدم وابلیس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ یہ شرم وحیا آدم وحوا میں موجود تھا کیونکہ ” جب انہوں نے درخت کو چکھا تو انکی شرمگائیں ظاہر ہوگئیں اور وہ اپنے اوپر جنت کے درختوں کے پتے لپیٹنے لگے ۔ جب کفار نے دیکھا کہ مسلمان تو لباس پہن کر بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں اور زیب وزینت کے ساتھ طواف کر رہے ہیں اور ستر و شرافت کے ساتھ کر رہے ہیں تاکہ ان میں فطرت کے عین مطابق انسانی خصوصیات پروان چڑھیں اور وہ حیوانوں کی طرح عریانی سے محفوظ رہیں۔ جب مسلمانوں نے یہ فطری حال اختیار کی تو انہوں نے اس پر نکتہ چینی شروع کردی ۔ یہ ہے جاہلیت کا کارنامہ ۔ وہ لوگوں کی فطرت ‘ ان کی روح ‘ انکے تصورات اور انکی اقدار اور پیمانوں کو مسخ کردیتی ہے ۔ آج دور جدید کی جاہلیت لوگوں کے ساتھ وہی کچھ کررہی ہے جو ان کے ساتھ جاہلیت عربیہ کر رہی تھی یا اس سے پہلے یونانی جاہلیت کر رہی تھی یا رومی جاہلیت کر رہی تھی یا فارس کی مشرک جاہلیت کر رہی تھی غرض ہر خطے اور ہر دور میں جاہلیت کے یہی خدوخال رہے ہیں ۔ دور جدید کی جاہلیت کیا کر رہی ہے ‘ صرف یہ کہ وہ لوگوں کو ننگا کر رہی ہے ۔ ان کے جسم سے شرم وحیا اور تقوی کے لباس کا اتار رہی ہے ۔ اس کام کو وہ ترقی اور تہذیب و تمدن کا نام دیتی ہے ۔ اس کے بعد وہ شریف زادوں اور شریف زادیوں کو طعنہ دیتی ہے کہ وہ رجعت پسند ‘ مقلد روایت پسند اور دیہاتی ہیں۔ مسخ فطرت کو مسخ کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے ۔ فطرت سے روگردانی کرنے کو فطرت کا فساد ہی کہا جاسکتا ہے ۔ حسن وقبح کے پیمانے بدل جانے کو ضمر کا بدلنا ہی کہا جاسکتا ہے اور اس پر اگر کوئی فخر بھی کرتا ہے تو وہ اس کا احمقانہ غرور ہی ہوگا بلکہ صریح سرکشی ہوگی ۔ کیونکہ اس بیماری اس حیوانیت اور اس سرکشی کا تعلق شرک کے ساتھ ہے ‘ یہ دراصل اربابا من دون اللہ کی طرف سے ان کے قانون سازی اور ضابطہ بندی ہے اور انہوں نے مل کر ایک دوسرے کو اس کی وصیت کی ہے ۔ عرب مشرکین اس قسم کی ہدایات اپنے علاقے کے حاکموں سے اخذ کرتے تھے اور یہ حکام ان کا استحصال کرتے تھے ‘ محض ان کی جہالت کی وجہ سے اور ان سے اس قسم کے غیر معقول کام کروا کر ان پر اپنی قیادت وسیادت مسلط کرتے جن میں کاہن سردار اور امراء سب شامل تھے ۔ آج بھی لوگ اپنی دنیاوی قیادتوں سے ایسی ہی ہدایات اخذ کرتے ہیں اور ان کی ہدایات کی تعمیل خدائی احکام کی طرح فرض ہوتی ہے ۔ کوئی انہیں رد نہیں کرسکتا ۔ آج آرائش کی دکانیں اور ان کی منصوبہ بندی کرنے والے ‘ اسی طرح فیشن کی منصوبہ بندی کرنے والے وہ ارباب ہیں جن کے جال میں دورجدید کی جاہلیت میں بسنے والی تمام عورتیں اور مرد پھنسے ہوئے ہیں ۔ یہ ارباب اپنے احکام صادر کرتے ہیں اور ان کی تعمیل وہ تمام لوگ کرتے ہیں جو پوری دنیا میں ننگی ٹکڑیوں کی شکل میں موجود ہیں اور یہ لوگ ان منصوبہ سازوں کے احکام کی تعمیل نہایت ہی بےبسی کی حالت میں کرتے ہیں ۔ یہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے لئے نئے سال کے لئے جو فیشن تیار کرلیا گیا ہے وہ انکے حالات اور ضروریات کے لئے مناسب بھی ہے یا نہیں ۔ یہ لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ لباس ان کیلئے مفید ہے یا نہیں بلکہ نہایت ہی عاجزی سے یہ لوگ ان کے اشاروں پر چلتے ہیں ۔ اگر یہ نہ چلیں تو ان پر دوسرے مویشی اور حیوانات حرف گیری کرتے ہیں اور طعنے دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آرائش وزیبائش اور فیشن ہاؤس کے پیچھے کون سے قوتیں کام کر رہی ہیں ؟ اور یہ کون سی قوتیں ہیں جو لوگوں کو ننگا کر رہی ہیں ۔ ناولوں اور فلموں کے پیچھے کیا مقاصد کام کررہے ہیں ؟ رسالوں اور اخباروں کی پشت پر کون سی قوتیں کار فرما ہیں ۔ بعض اخبارات تو مسلسل اخلاقی پستی اور اخلاقی فساد پھیلا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان چیزوں کی پشت پر وہ کون سی خفیہ قوت ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ تمام عالمی فساد کی پشت پر یہودیوں کی قوت ہے ۔ یہ یہودی ہی ہیں جو دراصل ان لوگوں کے خدا بنے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی نکیل ان کے ہاتھ میں دے دی ہے ۔ وہ اپنے مقاصد دنیا میں اس قسم کی لہریں پیدا کرکے حاصل کرتے ہیں اور پوری دنیا ان مقاصد کیلئے بھاری قیمت ادا کرکے کام کر رہی ہے ۔ ان مقاصد کے لئے وہ لوگوں کے اندر نفسیاتی بےچینی پھیلاتے ہیں ‘ انسانی فطرت کو بدلتے ہیں اور انسان کو فیشن اور جنسی بےراہ روی کے ہاتھ میں ایک کھلونا بنادیا گیا ہے ۔ اس اسراف وتبذیر اور اخلاقی فساد کے ذریعے یہ یہودی قوت اپنے معاشی مقاصد پورے کرتی ہے ۔ کیونکہ فیشن اور میک اپ اور سامان تعیش کے کارخانے عالمی یہودیت نے لگا رکھے ہیں اور یہ لوگوں کے اندر مانگ پیدا کرکے پھر ان اشیاء کو ان پر ہی فروخت کرتے ہیں ۔ لباس اور فیشن کا معاملہ اسلامی شریعت سے جدا نہیں ہے ۔ اسلامی نظام حیات میں اس کے لئے بھی ضابطہ مقرر ہے ۔ اور اسی لئے اسے ایمان اور توحید وشرک کے اساسی مسئلے کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے ۔ مختلف اسباب کی بناء پر یہ مسئلہ نظریات اور شریعت کے ساتھ مربوط ہے ۔ ٭ لباس کا تعلق اللہ کے اقتدار اعلی سے ہے کیونکہ اللہ ہی وہ ذات ہے جس کی طرف ہمیں اس معاملے میں رجوع کرنا ہے کیونکہ لباس ایک ایسی چیز ہے جس کے اثرات اخلاق ‘ معیشت اور زندگی کے دوسرے اہم معاملات پر پڑتے ہیں ۔ ٭ لباس ہی کے ذریعے انسان کی انسانی خصوصیات کا ظہور ہوتا ہے اور انسانی شخصیت کے حیوانی پہلو کو دبا کر انسانی پہلو کو نمایاں کیا جاتا ہے ۔ ہر جاہلیت کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ عوام الناس کے ذوق ‘ ان کے اخلاق اور ان کے حسن وقبح کے پیمانے بدل دیتی ہے اور عریانی اور حیوانیت کو ترقی کا نام دیتی ہے ۔ اور ستر اور حیاچشمی کو رجعت پسندی اور پسماندگی کہتی ہے ۔ ایسی صورت میں انسانی فطرت کو مسخ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ہمارے ہاں آج اس قسم کے جاہل موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ لباس کا دین اور مذہب کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ دین کا عورتوں کے لباس کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ دین و مذہب اور آرائش وزیبائش کا آپس میں تعلق ہی کیا ہے ؟ یہ ہے وہ فکری بگاڑ جو جاہلیت ہر دور میں اور ہر جگہ پیدا کرتی ہے ۔ بظاہر تو لباس کا مسئلہ ایک جزئی مسئلہ نظر آتا ہے لیکن اسلام اور رب تعالیٰ کے ہاں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ ایک تو اس کا تعلق توحید وشرک کے مسئلے سے ہے ‘ دوسرے اس کا تعلق انسان کے اخلاق ومعاشرے کی اصلاح و فساد کے ساتھ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس پر ایک نہایت ہی موثر اور پرزور تبصرہ کیا گیا ہے ۔ یہ تبصرہ عموما قرآن کریم میں بڑے بڑے اور اہم مسائل پر بحث کے بعد کیا گیا ہے ۔ اس تبصرے میں بنی آدم کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ انہیں اپنی اصل حقیقت پر بھی غور کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ یہاں ان کا رہنا اور سہنا بہرحال ایک محدود مدت تک کے لئے ہے اور ایک دن انہیں یہاں سے جانا ہے جس کا وقت مقرر ہے جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک منٹ کی تاخیر وتقدیم نہیں ہو سکتی ۔
Top