Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 32
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ١ؕ قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں مَنْ : کس حَرَّمَ : حرام کیا زِيْنَةَ اللّٰهِ : اللہ کی زینت الَّتِيْٓ : جو کہ اَخْرَجَ : اس نے نکالی لِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں کے لیے وَالطَّيِّبٰتِ : اور پاک مِنَ : سے الرِّزْقِ : رزق قُلْ : فرمادیں هِىَ : یہ لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے فِي الْحَيٰوةِ : زندگی میں الدُّنْيَا : دنیا خَالِصَةً : خالص طور پر يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن كَذٰلِكَ : اسی طرح نُفَصِّلُ : ہم کھول کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں لِقَوْمٍ : گروہ کے لیے يَّعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں
آپ کہئے اللہ کی زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لئے بنائی ہے کس نے حرام کردیا ہے، اور کھانے کی پاکیزہ چیزوں کو ؟ ،43 ۔ آپ کہہ دیجیے کہ یہ اشیاء ایمان والوں کے لئے دنیا کی زندگی میں ہیں (اور) قیامت کے دن تو خالص (انہی کے لئے) ہم اسی طرح کھول کر آیتوں کو بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں،44 ۔
43 ۔ یعنی اللہ کی جائز کی ہوئی نعمتوں کو حرام کردینے کا حق کس مخلوق کو حاصل ہے ؟ ظاہر ہے کہ کسی کو نہیں، اور جو لوگ اس میں مبتلا ہیں وہ گناہ ہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ (آیت) ” من حرم “۔ استفہام انکاری ہے اور انکار میں زور وتاکید مقصود ہے۔ المراد منہ تقریر الانکار والمبالغۃ فی تقریر ذلک الانکار (کبیر) (آیت) ” زینۃ اللہ “۔ زینت خدداد سے یہاں مراد کیا ہے ؟ لباس فاخرہ کا مراد ہونا تو سب کے نزدیک مسلم ہے۔ الزینۃ منھا الملبس الحسن اذا قدر علیہ صاحبہ (قرطبی) لیکن اکثر نے اسے وسعت دے کر جملہ سامان آرائش اس میں شامل رکھے ہیں۔ ای من الثیاب وکل الملبس یتجمل بہ (کشاف، بیضاوی) امام المفسرین امام رازی (رح) نے مزید دقت نظر سے کام لے کر اس کے اندر سواری، زیور وغیرہ سارے مرغوبات داخل کیے ہیں۔ بجز ان کے جو کسی نص سے حرام قرار پاچکے ہیں۔ زینت سے مراد انہوں نے جمیع انواع زینت کی ہے۔ (آیت) ” والطیبت من الرزق “۔ یعنی کھانے پینے کی جائز، پاکیزہ، لذیز اشیاء۔ الطیبت اسم عام لما طاب کسبا وطعما (قرطبی) قیلھی کل مستلذمن الطعام (قرطبی) کل ما یستلذ ویشتھی من انواع الماکولات والمشروبات (کبیر) یتناول جمیع انواع الزینۃ فیدخل تحت الزینۃ جمیع انواع التزیین ویدخل تحتھا تنظیف البدن من جمیع الوجوہ ویدخل تحتھا المرکوب ویخدل تحتھا ایضا انواع الحلی لان کل ذلک زینۃ ولولا النص الوارد فی تحریم الذھب والفضۃ والابریسم علی الرجال لکان ذلک داخلا تحت ھذالعموم (کبیر) امام رازی (رح) نے اسے وسعت دے کر دوسرے مرغوبات ولذات بھی اس کے اندر مانے ہیں۔ مثلا خوشبو یا حسن نسوانی، یدخل ایضا تحتہ التمتع بالنساء وبالطیب (کبیر) آیت سے ضمنا یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کھانے پینے کی چیزوں میں سے کچھ جائز و حلال ہیں اور کچھ ناجائز و حرام اور یہیں سے تردید ہوگئی اس مسیحی عقیدہ کی کہ ” کوئی چیز باہر سے آدمی میں داخل ہو کر اسے ناپاک نہیں کرسکتی “۔ (مرقس 7: 15) فقہاء ومفسرین نے آیت سے عید اور دعوت وغیرہ کے موقعوں پر خوشی لباسی کے استحباب پر استدلال کیا ہے۔ دلت الایۃ علی لباس الرفیع من الثیاب والتجمل بھا فی الجمع والاعیاد وعندلقاء الناس ومز اورۃ الاخوان (قرطبی) محققین نے اس آیت سے یہ بھی نکالا ہے کہ ذائقہ دار کھانے بجائے خود ہرگز قابل ترک نہیں چناچہ رسول اللہ ﷺ نے محض لذت کی بنا پر کسی بھی لذیذ غذا سے نہیں روکا ہے۔ البتہ ان کے شوق کی زیادتی اور لت کو جو شغل آخرت سے روک دینے والی ہوتی ہے، منع کیا ہے۔ قال ابوالحسن علی بن المفضل المقدسی شیخ اشیاخنا وھو الصحیح انشاء اللہ عزوجل فانہ لم ینقل عن النبی ﷺ انہ امتنع من طعام لاجل طیبہ قط بل کان یا کل الحلوی والعسل والبطیغ والرطب وانما یکرہ التکلف لمافیہ من التشاغل بشھوت الدنیا عن مھمات الاخرۃ (قرطبی) 44 ۔ (اور اپنی قوت علمیہ سے صحیح کام لیتے رہتے ہیں) (آیت) ” ھی للذین۔۔ یوم القیمۃ “۔ یعنی ساری نعمتیں اہل ایمان کا حصہ دنیا میں بھی۔ اور آخرت میں تو خاص الخاص انہی کے لیے ہوں گی ہی، بغیر کسی غیر مومن کی شرکت کے۔ تم الکلام علی الحیوۃ الدنیا ثم قال خالصۃ یوم القیمۃ ای یخلص اللہ الطیبات فی الاخرۃ للذین امنوا ولیس للمشرکین فیھا شیء کما کان لھم فی الدنیا من الاشتراک فیھا (قرطبی) وھی خالصۃ لھم دون المشرکین (جصاص) ابن عباس صحابی ؓ اور متعدد تابعین سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔ ھذا قول ابن عباس والضحاک والحسن وقتادہ والسدی وابن جریج وابن زید (قرطبی) زمخشری نے کہا کہ صرف (آیت) ” ھی للذین امنوا “۔ اور لغیرھم کی تصریح نہ کرنے میں نکتہ بلاغت یہ ہے کہ اصالۃ تو ان نعمتوں کے حقدار مومنین ہی ہیں۔ کافروں کو بھی یہ نعمتیں اگر دنیا میں مل رہی ہیں تو محض تبعا۔ لینبہ علی انھا خلقت للذین امنوا علی طریق الاصالۃ وان الکفرۃ تبع لھم (کشاف) دوسری تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ایسی نعمتیں جو دنیا میں جان کو لگیں اور آخرت میں وبال بن کر سامنے نہ آئیں خاص اہل ایمان ہی کا حصہ ہیں۔ وقیل المعنی ان ھذہ الطیبت الموجودات فی الدنیاھی خالصۃ یوم القیامۃ لل مومنین فی الدنیا وخلوصھا انھم لایعاقبون علیھا ولا یعذبون (قرطبی) ھی خالصۃ یوم القیمۃ لھم من شوائب التنقیص والتکدیر (جصاص)
Top