Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 64
فَكَذَّبُوْهُ فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ فِی الْفُلْكِ وَ اَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا عَمِیْنَ۠   ۧ
فَكَذَّبُوْهُ : پس انہوں نے اسے جھٹلایا فَاَنْجَيْنٰهُ : تو ہم نے اسے بچالیا وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مَعَهٗ : اس کے ساتھ فِي الْفُلْكِ : کشتی میں وَ : اور اَغْرَقْنَا : ہم نے غرق کردیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَانُوْا : تھے قَوْمًا : لوگ عَمِيْنَ : اندھے
پس ان لوگوں نے اس کو جھٹلا دیا تو ہم نے اس کو اور جو لوگ کشتی میں اس کے ساتھ تھے ‘ ان کو نجات دی اور ان لوگوں کو غرق کردیا ‘ جنھوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی۔ بیشک یہ لوگ اندھے تھے۔
ارشاد ہوتا ہے : فَکَذَّبُوْہُ فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ فِی الْفُلْکِ وَاَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ط اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا عَمِیْنَ ۔ (الاعراف : 64) ” پس ان لوگوں نے اس کو جھٹلا دیا تو ہم نے اس کو اور جو لوگ کشتی میں اس کے ساتھ تھے ‘ ان کو نجات دی اور ان لوگوں کو غرق کردیا ‘ جنھوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی۔ بیشک یہ لوگ اندھے تھے “۔ اس آیت کریمہ میں قرآن کریم وضاحت کرتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طویل ترین تبلیغی کاوشوں اور انتہائی تھکا دینے والی مساعی کے باوجود قوم نوح نے آپ کی دعوت کو رد کردیا۔ انھوں نے ہرچند کوشش کی کہ وہ آپ پر ایمان لا کر اللہ کے عذاب سے بچ جائیں لیکن وہ بجائے بات سن کردینے کے آپ کے درپے آزارہو گئے اور آپ کی جان لینے کے منصوبے باندھنے لگے لیکن حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی تبلیغی کاوشوں کو پھر بھی ترک نہیں کیا۔ رات دن اس کام میں جتے رہے اس کا اندازہ ہمیں سورة نوح کی ان آیات سے ہوتا ہے جس میں حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ سے دعا مانگتے ہوئے اپنی تبلیغی رپورٹ بھی پیش کر رہے ہیں۔ پیغمبر سچائی کا پیکر ہوتا ہے اور پھر جب وہ اپنی تبلیغی مساعی کو اللہ کے سامنے پیش کرتا ہے تو اس میں کسی کمی کا تو گمان ہوسکتا ہے مبالغے کا وہم بھی نہیں ہوسکتا۔ اندازہ فرمایئے کہ خود حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی تبلیغی کاوشوں کو کس طرح بیان فرما رہے ہیں۔ قرآن کریم کی زبان میں آپ نے فرمایا : قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِی لَیْلًا وَّ نَھَارًا۔ فَلَمْ یَزِدْھُم دُعَآئِیْٓ اِلَّا فِرَارًا۔ وَ اِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُھُمْ لِتَغْفِرَ لَھُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَھُمْ فِّٓیْ اٰذَانِھِمْ وَاسْتَغْشَوْاثِیَابَھُمْ وَاَصَرُّوْاوَاسْتَکْبَرُوا اسْتَکْبَارًا۔ ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُھُمْ جِھَارًا۔ ثُمَّ اِنِّٓیْ اَعْلَنْتُ لَھُمْ وَاَسْرَرْتُ لَھُمْ اِسْرَارًا۔ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ج اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ ” بولا اے رب ! میں بلاتا رہا اپنی قوم کو رات اور دن۔ پھر میرے بلانے سے اور زیادہ بھاگنے لگے اور میں نے جب کبھی ان کو بلایا ‘ تاکہ تو ان کو بخشے ‘ ڈالنے لگے انگلیاں اپنے کانوں میں اور لپیٹنے لگے اپنے اوپر کپڑے اور ضد کی اور غرور کیا ‘ بڑا غرور۔ پھر میں نے ان کو بلایا برملا ‘ پھر میں نے ان کو کھول کر کہا اور چھپ کر کہا چپکے سے۔ تو میں نے کہا گناہ بخشوائو اپنے رب سے ‘ بیشک وہ بخشنے والا ہے “ (نوح : 5-10) لیکن نوح (علیہ السلام) کے ہمدردی میں ڈوبے ہوئے یہ الفاظ بھی ان کی قوم کو راہ راست پر نہ لاسکے۔ وہ مسلسل اپنے عناد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہے جب آپ نے اپنی ساڑھے نو سو سال کی پیہم دعوت و تبلیغ کا ان پر کوئی اثر نہ دیکھا تو سخت ملول و پریشان خاطر ہوئے تب پروردگار نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : وَاُوْحِیَ اِلٰی نُوْحٍ اَنَّہٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ۔ (ہود : 36) ” اور نوح پر وحی کی گئی کہ جو ایمان لے آئے ‘ وہ لے آئے۔ اب ان میں سے کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے۔ پس ان کی حرکات پر غم نہ کر “۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) کو یہ معلوم ہوگیا کہ ان کے ابلاغ حق میں کوتاہی نہیں ہے بلکہ خود نہ ماننے والوں کی استعداد کا قصور ہے اور ان کی اپنی سرکشی کا نتیجہ ‘ تب ان کے اعمال اور کمینہ حرکات سے متأثر ہو کر اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں یہ دعا فرمائی : رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا۔ اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْاعَبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا۔ (نوح : 27) ” اے پروردگار ! تو کافروں میں سے کسی کو بھی زمین پر باقی نہ چھوڑ۔ اگر تو ان کو یونہی چھوڑ دے گا تو یہ تیرے بندوں کو بھی گمراہ کریں گے اور ان کی نسل بھی انہی کی طرح نافرمان پیدا ہوگی “۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی اور اپنے قانونِ جزائِ اعمال کے مطابق سرکشوں کی سرکشی اور متمردوں کے تمرد کی سزا کا اعلان کردیا اور حفظ ماتقدم کے لیے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ہدایت فرمائی کہ وہ ایک کشتی تیار کریں ‘ تاکہ اسباب ظاہری کے اعتبار سے وہ اور مومنین قانتین اس عذاب سے محفوظ رہیں۔ جو خدا کے نافرمانوں پر نازل ہونے والا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب حکم رب میں کشتی بنانی شروع کی تو کفار نے ہنسی اڑانا اور مذاق بنانا شروع کردیا اور جب کبھی ان کا ادھر سے گزر ہوتا تو کہتے کہ خوب ! جب ہم غرق ہونے لگیں گے تب تو اور تیرے پیرو اس کشتی میں محفوظ رہ کر نجات پاجائیں گے ‘ کیسا احمقانہ خیال ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) بھی ان کی انجام کار سے غفلت اور اللہ کی نافرمانی پر جرأت دیکھ کر ان ہی کے طرز پر جواب دیتے اور اپنے کام میں مشغول رہتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ان کو حقیقت حال سے آگاہ کردیا تھا۔ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ج اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ ۔ ”(اے نوح ! ) تو ہماری حفاظت میں ہماری وحی کے مطابق سفینہ تیار کیے جا اور اب مجھ سے ان کے متعلق کچھ نہ کہو ‘ یہ بلاشبہ غرق ہونے والے ہیں “ (ھود : 37) آخر سفینہ نوح (علیہ السلام) بن کر تیار ہوگیا۔ اب اللہ کے وعدہ عذاب کا وقت قریب آیا اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس پہلی علامت کو دیکھا جس کا ذکر ان سے کیا گیا تھا ‘ یعنی زمین کی تہہ میں سے پانی کا چشمہ ابلنا شروع ہوگیا۔ تب وحی الٰہی نے ان کو حکم سنایا کہ کشتی میں اپنے خاندان کو بیٹھنے کا حکم دو اور تمام جانداروں میں سے ہر ایک کا ایک جوڑا بھی کشتی میں پناہ گیر ہو اور وہ مختصر جماعت (تقریباً اسی 80 نفر) بھی جو تجھ پر ایمان لا چکی ہے کشتی میں سوار ہوجائے۔ جب وحی الٰہی کی تعمیل پوری ہوگئی تو اب آسمان کو حکم ہوا کہ پانی برسنا شروع ہو اور زمین کے چشموں کو امر کیا گیا کہ وہ پوری طرح ابل پڑیں۔ اللہ کے حکم سے جب یہ سب کچھ ہوتا رہا تو کشتی بھی اس کی حفاظت میں پانی پر ایک مدت تک محفوظ تیرتی رہی تاآنکہ تمام منکرین و معاندین غرق آب ہوگئے اور خدائے تعالیٰ کے قانون ” جزائِ اعمال “ کے مطابق اپنے کیفر کردار کو پہنچ گئے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا یہ عذاب اللہ کی حکمت اور مصلحت کے مطابق جب اپنے اختتام کو پہنچا تو سفینہ نوح ” جودی “ پہاڑ پر جا ٹھہرا۔ تورات میں ” جودی “ کو ” اراراط “ کے پہاڑوں میں سے بتایا گیا ہے۔ اراراط، درحقیقت جزیرہ کا نام ہے یعنی اس علاقے کا نام جو فرات اور دجلہ کے درمیان ” دیار بکر “ سے بغداد تک مسلسل چلا گیا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے مطابق کفار کی جڑ کاٹ کے رکھ دی اور حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ پر ایمان لانے والوں کو محض اپنی رحمت سے نجات عطا فرمائی اور پھر انہی کی نسل سے سلسلہ نوع انسانی آگے بڑھا۔ آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ ” بیشک یہ لوگ اندھے تھے “۔ یہاں اندھا ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ نور بصارت سے محروم تھے یعنی ان کی آنکھیں بینائی سے خالی تھیں اور وہ دیکھنے سے عاجز ہوگئے تھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دل کے اندھے اور نور بصیرت سے محروم تھے اور یہ وہ اندھا پن ہے جو انسان کی گمراہی کا باعث بنتا ہے۔ آنکھوں کا اندھا ہونا اس کا ہدایت اور ضلالت سے کوئی تعلق نہیں۔ آنکھوں والے ہدایت سے محروم رہتے ہیں اندھے ہدایت پاکرعبد اللہ ابن ام مکتوم بن جاتے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم نے ارشاد فرمایا : فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ ۔ (الحج : 46) ” آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں ‘ بلکہ سینوں میں دل اندھے ہوتے ہیں “۔ اقبال نے اسی کی روشنی میں نصیحت کرتے ہوئے کہا ؎ دل کا نور کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
Top