Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 65
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
وَاِلٰي
: اور طرف
عَادٍ
: عاد
اَخَاهُمْ
: ان کے بھائی
هُوْدًا
: ہود
قَالَ
: اس نے کہا
يٰقَوْمِ
: اے میری قوم
اعْبُدُوا
: عبادت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
مَا لَكُمْ
: تمہارے لیے نہیں
مِّنْ
: کوئی
اِلٰهٍ
: معبود
غَيْرُهٗ
: اس کے سوا
اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
: تو کیا تم نہیں ڈرتے
اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے ان کو دعوت دیتے ہوئے کہا : اے برادرانِ قوم ! اللہ ہی کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی اور معبود نہیں ‘ کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟۔
وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا ط قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہ َ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ۔ (الاعراف : 65) ” اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے ان کو دعوت دیتے ہوئے کہا : اے برادرانِ قوم ! اللہ ہی کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی اور معبود نہیں ‘ کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟ “۔ قومِ عاد کی تاریخ اس سے پہلے کہ ہم آیت کریمہ کے مندرجات کی وضاحت کریں ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قوم عاد کے بارے میں کچھ تفصیلات مہیا کردیں۔ عاد ‘ عرب کے قدیم قبیلہ یا امم سامیہ کے صاحب قوت و اقتدار افرادِ جماعت کا نام ہے ‘ تاریخ قدیم کے بعض یورپی مصنفین عاد کو ایک فرضی کہانی (میتھالوجی) یقین کرتے ہیں مگر ان کا یہ یقین بالکل غلط اور سراسر وہم ہے ‘ اس لیے کہ جدید تحقیقات کا یہ مسلم فیصلہ ہے کہ عرب کے قدیم باشندے کثرت افراد و قبائل کے اعتبار سے ایک باعظمت و سطوت جماعت کی حیثیت میں تھے جو عرب سے نکل کر شام ‘ مصر اور بابل کی طرف بڑھے اور وہاں زبردست حکومتوں کی بنیادیں قائم کیں۔ اب فرق صرف اس قدر ہے کہ عرب ان باشندوں کو امم بائدہ (ہلاک ہوجانے والی قومیں) یا عرب عاربہ (خالص عرب) اور ان کی مختلف جماعتوں کے افراد کو عاد ‘ ثمود ‘ طسم اور جدیس کہتے ہیں اور مستشرقینِ یورپ (اممِ سامیہ) نام رکھتے ہیں ‘ پس اصطلاحات و تعبیرات کے فرق سے حقیقت و واقعہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوجاتی ‘ اس لیے قرآن عزیز نے ان کو عاد اولیٰ کہا ہے کہ یہ واضح ہوجائے تاکہ عرب کی قدیم قوم بنو سام اور عاد اولیٰ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ اہلِ جغرافیہ کا قول ہے کہ لفظ عرب دراصل عربہ تھا جس کے معنی صحرا اور بادیہ کے ہیں ‘ خود عربی زبان میں اعراب اہل بادیہ کو کہتے ہیں اور اعرابہ کے معنی بدویت کے آتے ہیں اور بعض اہل تحقیق کی رائے یہ ہے کہ عرب اصل میں غرب (غین معجمہ کے ساتھ) تھا اور چونکہ اس کا جائے وقوع فرات کے غرب میں ہے اس لیے وہ آرامی قومیں (امم سامیہ) جو کہ فراتِ غربی پر آباد تھیں ‘ اول غرب اور پھر غین کے نقطہ کے سقوط کے بعد عرب کہلائیں۔ ان میں سے عرب کی وجہ تسمیہ جو بھی صحیح ہو یہ حقیقت ہے کہ یہ مقام قدیم امم سامیہ یا بدوی جماعتوں یا عاد کا مسکن تھا۔ اس لیے عاد بغیر کسی اختلاف کے عرب نژاد تھے اور لفظ عاد عربی ہے نہ کہ عجمی جس کے معنی عبرانی میں ” بلندو مشہور “ کے ہیں ‘ قرآن عزیز میں عاد کے ساتھ ارم کا لفظ لگا ہوا ہے اور ارم (سام) کے معنی بھی ” بلندو مشہور “ ہی کے ہیں ‘ انہی عاد کو توراۃ کی غلط پیروی میں کہیں کہیں عمالقہ بھی کہا گیا ہے۔ عاد کا زمانہ تقریباً دو ہزار سال قبل حضرت مسیح (علیہ السلام) مانا جاتا ہے اور قرآن عزیز میں عاد کو ” مِنْ م بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ “ کہہ کر قوم نوح کے خلفاء میں سے شمار کیا ہے۔ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ شام کی دوبارہ آبادی کے بعد امم سامیہ کی ترقی عاد ہی سے شروع ہوتی ہے۔ عاد کا مرکزی مقام ارض احقاف ہے یہ حضرموت کے شمال میں اس طرح واقع ہے کہ اس کے شرق میں عمان ہے اور شمال میں ربع الخالی ‘ مگر آج یہاں ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور بعض مورخین کہتے ہیں کہ ان کی آبادی عرب کے سب سے بہترین حصہ حضرموت اور یمن میں خلیج فارس کے سواحل سے حدود عراق تک وسیع تھی اور یمن ان کا دارالحکومت تھا۔ عاد بت پرست تھے اور اپنے پیشرو قوم نوح (علیہ السلام) کی طرح صنم پرستی اور صنم تراشی میں ماہر تھے ‘ تاریخِ قدیم کے بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ان کے معبودانِ باطل بھی قوم نوح (علیہ السلام) کی طرح وَد ‘ سُواع ‘ یغوث ‘ یعوق اور نسر ہی تھے اور حضرت عبد اللہ بن عباس ( رض) سے ایک اثر منقول ہے اس میں ہے کہ ان کے ایک صنم کا نام صمود اور ایک کا نام ہتار تھا۔ عاد اپنی مملکت کی سطوت و جبروت اور جسمانی قوت و صولت کے غرور میں ایسے چمکے کہ انھوں نے خدائے واحد کو بالکل بھلا دیا اور اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے بتوں کو اپنا معبود مان کر ہر قسم کے شیطانی اعمال بےخوف و خطر کرنے لگے تب اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک پیغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا حضرت ہود (علیہ السلام) عاد کی سب سے زیادہ معزز شاخ خلود کے ایک فرد تھے ‘ سرخ و سپید رنگ اور وجیہ تھے ‘ ان کی داڑھی بڑی تھی۔ ایک نکتہ کی وضاحت اس سے پیشتر کہ ہم حضرت ہود (علیہ السلام) کی دعوت کا ذکر کریں آیت کریمہ کے اس جملے میں ایک نقطے کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا۔ یہاں حضرت ہود کو عاد کا بھائی کہا گیا ہے یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ ہود کوئی باہر کے آدمی نہیں تھے بلکہ وہ قوم عاد ہی کی برادری کے ایک فرد تھے۔ انہی میں سے ایک محترم قبیلے کے چشم و چراغ تھے۔ یہ اصل میں ایک اصول کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر کیا گیا ہے وہ یہ کہ اللہ کا رسول دنیا میں حجت کاملہ بن کے آتا ہے اس کی ذات کی صورت میں اللہ تعالیٰ اس قوم پر حجت تمام کردیتا ہے وہ قوم قیامت کے دن یہ نہیں کہہ سکتی کہ کسی نے ہمیں سمجھانے بجھانے کا حق ادا نہیں کیا۔ اللہ کا رسول اپنی ذات میں ایسی دل آویزی ‘ ایسی وجاہت ‘ ایسی ہدایت اور ایسی روشنی لے کر آتا ہے کہ رفتہ رفتہ وہ لوگ جو اس پر ایمان نہیں لاتے وہ بھی دل سے اس بات کے قائل ہوجاتے ہیں کہ یہ شخص جو کچھ کہہ رہا ہے وہ یقینا صحیح ہے۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ ان پر حجت تمام کردیتا ہے۔ قیامت کے دن جب یہ لوگ اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم ایمان کیوں نہیں لائے تو وہ ہرگز یہ عذر نہیں کرسکیں گے کہ ہماری طرف آپ کا کوئی رسول نہیں آیا تھا یا اگر آیا تھا تو ہم اسکی بات سمجھ نہ سکے تھے اور پوری طرح حق ہم پر واضح نہیں ہوسکا تھا۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول کا اصل فریضہ اللہ کی طرف سے حجت تمام کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول کی دعوت کو قبول کرنے سے جب انکار کردیا جاتا ہے اور پھر اس انکار پر اس حد تک اصرار بڑھتا ہے کہ آہستہ آہستہ اس قوم کی قبولیت کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں اور وہ استعداد کی آخری رمق سے بھی محروم ہوجاتی ہے تو تب اللہ کا عذاب آتا ہے اور اس قوم کو مٹا دیا جاتا ہے۔ اندازہ فرمایئے کہ جس رسول کی بعثت پر اس کی مخاطب قوم کی زندگی کا دارومدار ہے اگر وہ رسول اس قوم کے لیے ایک اجنبی ہوتا ‘ قوم اگر ایشیائی ہے تو رسول یورپی ہوتا دونوں کی زبانیں مختلف ‘ دونوں کے مزاجوں میں بعد ‘ دونوں کے طور اطوار میں مغائرت ‘ دونوں کے عرف ایک دوسرے سے بیگانہ ‘ غرضیکہ اپنائیت کی کوئی شکل بھی نہ ہوتی جو فہم و افہام میں مددگار ثابت ہو اور جس سے ایک دوسرے پر اعتماد پیدا ہونے میں آسانی ہو تو ایسی صورت میں حجت تمام ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے اللہ کا یہ قانون ٹھہرا کہ وہ انسانوں کی طرف انسان کو بھیجتا ہے ‘ کسی غیر انسان کو نہیں اور انسان بھی ایسا جو اسی قوم سے تعلق رکھتا ہو جس قوم کی طرف اسے بھیجا جا رہا ہے۔ اس کی زبان بھی وہی ہو۔ قوم اس سے اور اس کے خاندانی پس منظر سے پوری طرح آگاہ ہو۔ وہ خوب جانتی ہو کہ یہ شخص جو رسالت کا دعویٰ کر رہا ہے اس کی خاندانی وجاہتیں ‘ احترام کے لائق ہیں۔ اس نے اپنی گزشتہ زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ یہ شخص معاملات میں نہایت کھرا اور کردار کا نہایت اجلا رہا وہ بیشک اس پر ایمان نہ لائیں لیکن اس کے کردار کے بارے میں کبھی بدگمان نہیں ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صاحب ایمان لوگ تو پیغمبر سے فائدہ اٹھاتے ہی ہیں ‘ ایمان نہ لانے والے بھی دل سے اعتراف پر مجبور ہوتے ہیں وہ پیغمبر کی ایک ایک بات کو دل میں اترتا ہوا محسوس کرتے ہیں اسی وجہ سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ پیغمبر کی دعوت اور اس پر اترنے والی کتاب کو نہ خود سنا جائے ‘ نہ دوسروں کو سننے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ اس کتاب اور اس پیغمبر کے تأثر کی گرفت سے آزاد رہ سکیں۔ اللہ کے اسی قانون کے مطابق حضرت ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کی طرف بھیجا گیا جو انہی کی برادری سے تعلق رکھتے تھے ‘ انہی کی زبان بولتے تھے اور انہی جیسے قومی خصائص کے حامل تھے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کی دعوت حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے وہی دعوت پیش کی جو حضرت نوح (علیہ السلام) اور باقی انبیاء و رسل پیش کرتے رہے آپ نے فرمایا کہ اے برادرانِ قوم اللہ ہی کی عبادت کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی اور معبود نہیں۔ یاد رکھو ! یہی دعوت اور یہی کلمہ جامعہ انسان کی دنیوی اور اخروی فلاح کی کلید ہے اور اسی کو چھوڑ دینے کا نتیجہ دنیا میں عذاب کی صورت میں اور آخرت میں دائمی عذاب کی صورت میں نکل سکتا ہے جیسا کہ ہم اس سے پہلے عرض کرچکے ہیں کہ انسان کی زندگی باقی کائنات کی زندگی کا ایک جزو ہے انسان جس کرے پر آباد ہے یہ باقی کائنات کے بیشمار کروں کی طرح ایک کرّہ ہے جس کا خالق ومالک باقی کائنات کی طرح اللہ تعالیٰ ہے۔ ہم تمام کائنات میں نہایت سکون ‘ اطمینان اور ہمواری دیکھتے ہیں کوئی کرّہ کسی دوسرے کرّے سے نہیں ٹکراتا ‘ کسی مخلوق کے افراد میں باہمی لڑائیاں نہیں ہوتیں ‘ پوری کائنات میں کہیں فساد کے آثار نظر نہیں آتے ‘ روز اول سے مخلوق کے جس فرد کو جس کام اور ڈیوٹی پر لگا دیا گیا ہے وہ کبھی اس سے سرتابی کی جرأت نہیں کرتا ‘ سورج اپنی تمازت سے دنیا کو رزق پہنچا رہا ہے ‘ چاند اپنی حلاوت کے خزانے لٹا رہا ہے ‘ سمندر آب رسانی کا فرض انجام دے رہے ہیں ‘ ہر سایہ دار درخت سایہ بہم پہنچاتا اور ہر پھل دار درخت پھل کی دولت لٹاتا ہے۔ زمین روئیدگی کی قوت سے مالا مال ہے اور وہ اپنی خدمت سے کبھی صرف نظر نہیں کرتی۔ پہاڑ مختلف قسم کی امانتوں کے امین ہیں انھوں نے اپنا سینہ کھولنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔ غرضیکہ پوری کائنات اپنے خالق ومالک کی اطاعت میں پوری طرح مصروف عمل ہے اس اطاعت کا نتیجہ یہ ہے کہ کائنات میں کہیں خلل اور فساد کا نشان تک نظر نہیں آتا۔ کائنات کا ایک ایک فرد اپنے مالک کو پہچانتا بھی ہے اور اس کا اطاعت گزار بھی ہے۔ اس کے برعکس نوع انسانی کے افراد انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں میں بری طرح افراتفری ‘ بےچینی اور بےاطمینانی کا شکار ہیں۔ ہر ایک دوسروں کے حقوق چھین رہا ہے ‘ فرائض سے پہلوتہی کر رہا ہے ‘ نفسانیت کا پرستار اور اپنے مالک سے منحرف۔ نتیجتاً پوری زمین فساد سے بھر گئی ہے۔ پیغمبر اس لیے دنیا میں تشریف لاتے ہیں کہ وہ لوگوں کو یہ بتلائیں کہ دیکھو پوری کائنات اللہ کو اپنا خالق ومالک مان کر اور اس کے احکام کی تعمیل کے نتیجے میں نہایت عافیت سے زندگی گزار رہی ہے تم اگر چاہتے ہو کہ تمہاری اس سرزمین پر بھی خوشی اور راحت کے گیت گائے جائیں اور تمہاری زندگی نہایت آسودگی سے گزرے تو تمہیں بھی باقی کائنات کی طرح اپنے خالق ومالک کو پہچان کر اسی کی اطاعت میں لگ جانا چاہیے۔ تمہاری ساری پریشانیوں کا باعث صرف یہ ہے کہ تمام کائنات کا سفر اللہ کی اطاعت میں جاری ہے اور تم بالکل اس کے برعکس اس کی الٹی سمت میں اس کی معصیت کے سفر پر رواں دواں ہو۔ جس کے نتیجے میں قدم قدم پر تمہیں تصادم سے واسطہ پڑتا ہے اس لیے ہم تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ ایک ہی اللہ کو آقا مانو اور یہ یقین جانو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی آقا ‘ کوئی مالک اور کوئی حاکم حقیقی نہیں۔ اسی کی بندگی اور اطاعت میں زندگی گزارنے کا عہد کرلو اور پھر اس عہد کی تعمیل میں جت جاؤ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ باقی کائنات کی طرح تمہاری زندگی بھی آسودہ ہوجائے گی۔ اس دنیا میں بھی تمہیں فلاح و کامرانی سے نوازا جائے گا اور آخرت میں فرشتے تمہارا استقبال کریں گے اور اللہ کی بےپایاں اور دائمی نعمتیں تمہارا مقدر ہوں گی لیکن تم اگر اس سادہ سی بات کو نہیں سمجھتے ہو اور تم اپنے خالق ومالک کی اطاعت اور فرمانبرداری کی بجائے اس کی نافرمانی کا فیصلہ کرتے ہو اور بجائے اس کی اطاعت کرنے کے تم اپنے نفس اور اپنی خواہشات کی اطاعت میں زندگی گزارتے ہو تو پھر یاد رکھو اللہ تعالیٰ اپنی زمین پر رہنے والی اپنی مخلوق کو زیادہ دیر تک بغاوت کی اجازت نہیں دے سکتا۔ وہ تمہیں سمجھانے اور وارننگ دینے کے لیے اپنے نبی اور رسول بھیجتا ہے لیکن جب اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد بھی تم اپنا رویہ نہیں بدلتے ہو تو بالآخر اس کا عذاب کمر توڑ کے رکھ دیتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ” اَفَلَا تَتَّقُوْنَ کیا تم ڈرتے نہیں ہو “ یعنی تمہیں اس بات کا خوف نہیں کہ اگر تم نے اللہ کی بغاوت سے توبہ نہ کی اور اس کی اطاعت میں تم نے زندگی نہ گزاری تو تم اس بات سے نہیں ڈرتے ہو کہ وہ تم پر عذاب نازل کر دے اور تم پر ایسی گرفت فرمائے کہ تمہارے کس بل نکل جائیں اور قیامت کے دن تمہیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں پھینک دے ؟ اگر تمہارے اندر کچھ بھی احساس کی دولت باقی ہے اور اگر تمہارے دماغوں میں کچھ بھی عقل موجود ہے تو تمہیں اس انجام سے سو دفعہ ڈرنا چاہیے۔ اس کے بعد حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان جو مکالمہ ہوا ہے اس کے چند اجزاء کا ذکر فرمایا گیا ہے۔
Top