Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 65
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : تو کیا تم نہیں ڈرتے
اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے ان کو دعوت دیتے ہوئے کہا : اے برادرانِ قوم ! اللہ ہی کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی اور معبود نہیں ‘ کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟۔
وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا ط قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہ َ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ۔ (الاعراف : 65) ” اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے ان کو دعوت دیتے ہوئے کہا : اے برادرانِ قوم ! اللہ ہی کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی اور معبود نہیں ‘ کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟ “۔ قومِ عاد کی تاریخ اس سے پہلے کہ ہم آیت کریمہ کے مندرجات کی وضاحت کریں ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قوم عاد کے بارے میں کچھ تفصیلات مہیا کردیں۔ عاد ‘ عرب کے قدیم قبیلہ یا امم سامیہ کے صاحب قوت و اقتدار افرادِ جماعت کا نام ہے ‘ تاریخ قدیم کے بعض یورپی مصنفین عاد کو ایک فرضی کہانی (میتھالوجی) یقین کرتے ہیں مگر ان کا یہ یقین بالکل غلط اور سراسر وہم ہے ‘ اس لیے کہ جدید تحقیقات کا یہ مسلم فیصلہ ہے کہ عرب کے قدیم باشندے کثرت افراد و قبائل کے اعتبار سے ایک باعظمت و سطوت جماعت کی حیثیت میں تھے جو عرب سے نکل کر شام ‘ مصر اور بابل کی طرف بڑھے اور وہاں زبردست حکومتوں کی بنیادیں قائم کیں۔ اب فرق صرف اس قدر ہے کہ عرب ان باشندوں کو امم بائدہ (ہلاک ہوجانے والی قومیں) یا عرب عاربہ (خالص عرب) اور ان کی مختلف جماعتوں کے افراد کو عاد ‘ ثمود ‘ طسم اور جدیس کہتے ہیں اور مستشرقینِ یورپ (اممِ سامیہ) نام رکھتے ہیں ‘ پس اصطلاحات و تعبیرات کے فرق سے حقیقت و واقعہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوجاتی ‘ اس لیے قرآن عزیز نے ان کو عاد اولیٰ کہا ہے کہ یہ واضح ہوجائے تاکہ عرب کی قدیم قوم بنو سام اور عاد اولیٰ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ اہلِ جغرافیہ کا قول ہے کہ لفظ عرب دراصل عربہ تھا جس کے معنی صحرا اور بادیہ کے ہیں ‘ خود عربی زبان میں اعراب اہل بادیہ کو کہتے ہیں اور اعرابہ کے معنی بدویت کے آتے ہیں اور بعض اہل تحقیق کی رائے یہ ہے کہ عرب اصل میں غرب (غین معجمہ کے ساتھ) تھا اور چونکہ اس کا جائے وقوع فرات کے غرب میں ہے اس لیے وہ آرامی قومیں (امم سامیہ) جو کہ فراتِ غربی پر آباد تھیں ‘ اول غرب اور پھر غین کے نقطہ کے سقوط کے بعد عرب کہلائیں۔ ان میں سے عرب کی وجہ تسمیہ جو بھی صحیح ہو یہ حقیقت ہے کہ یہ مقام قدیم امم سامیہ یا بدوی جماعتوں یا عاد کا مسکن تھا۔ اس لیے عاد بغیر کسی اختلاف کے عرب نژاد تھے اور لفظ عاد عربی ہے نہ کہ عجمی جس کے معنی عبرانی میں ” بلندو مشہور “ کے ہیں ‘ قرآن عزیز میں عاد کے ساتھ ارم کا لفظ لگا ہوا ہے اور ارم (سام) کے معنی بھی ” بلندو مشہور “ ہی کے ہیں ‘ انہی عاد کو توراۃ کی غلط پیروی میں کہیں کہیں عمالقہ بھی کہا گیا ہے۔ عاد کا زمانہ تقریباً دو ہزار سال قبل حضرت مسیح (علیہ السلام) مانا جاتا ہے اور قرآن عزیز میں عاد کو ” مِنْ م بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ “ کہہ کر قوم نوح کے خلفاء میں سے شمار کیا ہے۔ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ شام کی دوبارہ آبادی کے بعد امم سامیہ کی ترقی عاد ہی سے شروع ہوتی ہے۔ عاد کا مرکزی مقام ارض احقاف ہے یہ حضرموت کے شمال میں اس طرح واقع ہے کہ اس کے شرق میں عمان ہے اور شمال میں ربع الخالی ‘ مگر آج یہاں ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور بعض مورخین کہتے ہیں کہ ان کی آبادی عرب کے سب سے بہترین حصہ حضرموت اور یمن میں خلیج فارس کے سواحل سے حدود عراق تک وسیع تھی اور یمن ان کا دارالحکومت تھا۔ عاد بت پرست تھے اور اپنے پیشرو قوم نوح (علیہ السلام) کی طرح صنم پرستی اور صنم تراشی میں ماہر تھے ‘ تاریخِ قدیم کے بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ان کے معبودانِ باطل بھی قوم نوح (علیہ السلام) کی طرح وَد ‘ سُواع ‘ یغوث ‘ یعوق اور نسر ہی تھے اور حضرت عبد اللہ بن عباس ( رض) سے ایک اثر منقول ہے اس میں ہے کہ ان کے ایک صنم کا نام صمود اور ایک کا نام ہتار تھا۔ عاد اپنی مملکت کی سطوت و جبروت اور جسمانی قوت و صولت کے غرور میں ایسے چمکے کہ انھوں نے خدائے واحد کو بالکل بھلا دیا اور اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے بتوں کو اپنا معبود مان کر ہر قسم کے شیطانی اعمال بےخوف و خطر کرنے لگے تب اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک پیغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا حضرت ہود (علیہ السلام) عاد کی سب سے زیادہ معزز شاخ خلود کے ایک فرد تھے ‘ سرخ و سپید رنگ اور وجیہ تھے ‘ ان کی داڑھی بڑی تھی۔ ایک نکتہ کی وضاحت اس سے پیشتر کہ ہم حضرت ہود (علیہ السلام) کی دعوت کا ذکر کریں آیت کریمہ کے اس جملے میں ایک نقطے کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا۔ یہاں حضرت ہود کو عاد کا بھائی کہا گیا ہے یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ ہود کوئی باہر کے آدمی نہیں تھے بلکہ وہ قوم عاد ہی کی برادری کے ایک فرد تھے۔ انہی میں سے ایک محترم قبیلے کے چشم و چراغ تھے۔ یہ اصل میں ایک اصول کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر کیا گیا ہے وہ یہ کہ اللہ کا رسول دنیا میں حجت کاملہ بن کے آتا ہے اس کی ذات کی صورت میں اللہ تعالیٰ اس قوم پر حجت تمام کردیتا ہے وہ قوم قیامت کے دن یہ نہیں کہہ سکتی کہ کسی نے ہمیں سمجھانے بجھانے کا حق ادا نہیں کیا۔ اللہ کا رسول اپنی ذات میں ایسی دل آویزی ‘ ایسی وجاہت ‘ ایسی ہدایت اور ایسی روشنی لے کر آتا ہے کہ رفتہ رفتہ وہ لوگ جو اس پر ایمان نہیں لاتے وہ بھی دل سے اس بات کے قائل ہوجاتے ہیں کہ یہ شخص جو کچھ کہہ رہا ہے وہ یقینا صحیح ہے۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ ان پر حجت تمام کردیتا ہے۔ قیامت کے دن جب یہ لوگ اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم ایمان کیوں نہیں لائے تو وہ ہرگز یہ عذر نہیں کرسکیں گے کہ ہماری طرف آپ کا کوئی رسول نہیں آیا تھا یا اگر آیا تھا تو ہم اسکی بات سمجھ نہ سکے تھے اور پوری طرح حق ہم پر واضح نہیں ہوسکا تھا۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول کا اصل فریضہ اللہ کی طرف سے حجت تمام کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول کی دعوت کو قبول کرنے سے جب انکار کردیا جاتا ہے اور پھر اس انکار پر اس حد تک اصرار بڑھتا ہے کہ آہستہ آہستہ اس قوم کی قبولیت کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں اور وہ استعداد کی آخری رمق سے بھی محروم ہوجاتی ہے تو تب اللہ کا عذاب آتا ہے اور اس قوم کو مٹا دیا جاتا ہے۔ اندازہ فرمایئے کہ جس رسول کی بعثت پر اس کی مخاطب قوم کی زندگی کا دارومدار ہے اگر وہ رسول اس قوم کے لیے ایک اجنبی ہوتا ‘ قوم اگر ایشیائی ہے تو رسول یورپی ہوتا دونوں کی زبانیں مختلف ‘ دونوں کے مزاجوں میں بعد ‘ دونوں کے طور اطوار میں مغائرت ‘ دونوں کے عرف ایک دوسرے سے بیگانہ ‘ غرضیکہ اپنائیت کی کوئی شکل بھی نہ ہوتی جو فہم و افہام میں مددگار ثابت ہو اور جس سے ایک دوسرے پر اعتماد پیدا ہونے میں آسانی ہو تو ایسی صورت میں حجت تمام ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے اللہ کا یہ قانون ٹھہرا کہ وہ انسانوں کی طرف انسان کو بھیجتا ہے ‘ کسی غیر انسان کو نہیں اور انسان بھی ایسا جو اسی قوم سے تعلق رکھتا ہو جس قوم کی طرف اسے بھیجا جا رہا ہے۔ اس کی زبان بھی وہی ہو۔ قوم اس سے اور اس کے خاندانی پس منظر سے پوری طرح آگاہ ہو۔ وہ خوب جانتی ہو کہ یہ شخص جو رسالت کا دعویٰ کر رہا ہے اس کی خاندانی وجاہتیں ‘ احترام کے لائق ہیں۔ اس نے اپنی گزشتہ زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ یہ شخص معاملات میں نہایت کھرا اور کردار کا نہایت اجلا رہا وہ بیشک اس پر ایمان نہ لائیں لیکن اس کے کردار کے بارے میں کبھی بدگمان نہیں ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صاحب ایمان لوگ تو پیغمبر سے فائدہ اٹھاتے ہی ہیں ‘ ایمان نہ لانے والے بھی دل سے اعتراف پر مجبور ہوتے ہیں وہ پیغمبر کی ایک ایک بات کو دل میں اترتا ہوا محسوس کرتے ہیں اسی وجہ سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ پیغمبر کی دعوت اور اس پر اترنے والی کتاب کو نہ خود سنا جائے ‘ نہ دوسروں کو سننے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ اس کتاب اور اس پیغمبر کے تأثر کی گرفت سے آزاد رہ سکیں۔ اللہ کے اسی قانون کے مطابق حضرت ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کی طرف بھیجا گیا جو انہی کی برادری سے تعلق رکھتے تھے ‘ انہی کی زبان بولتے تھے اور انہی جیسے قومی خصائص کے حامل تھے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کی دعوت حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے وہی دعوت پیش کی جو حضرت نوح (علیہ السلام) اور باقی انبیاء و رسل پیش کرتے رہے آپ نے فرمایا کہ اے برادرانِ قوم اللہ ہی کی عبادت کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی اور معبود نہیں۔ یاد رکھو ! یہی دعوت اور یہی کلمہ جامعہ انسان کی دنیوی اور اخروی فلاح کی کلید ہے اور اسی کو چھوڑ دینے کا نتیجہ دنیا میں عذاب کی صورت میں اور آخرت میں دائمی عذاب کی صورت میں نکل سکتا ہے جیسا کہ ہم اس سے پہلے عرض کرچکے ہیں کہ انسان کی زندگی باقی کائنات کی زندگی کا ایک جزو ہے انسان جس کرے پر آباد ہے یہ باقی کائنات کے بیشمار کروں کی طرح ایک کرّہ ہے جس کا خالق ومالک باقی کائنات کی طرح اللہ تعالیٰ ہے۔ ہم تمام کائنات میں نہایت سکون ‘ اطمینان اور ہمواری دیکھتے ہیں کوئی کرّہ کسی دوسرے کرّے سے نہیں ٹکراتا ‘ کسی مخلوق کے افراد میں باہمی لڑائیاں نہیں ہوتیں ‘ پوری کائنات میں کہیں فساد کے آثار نظر نہیں آتے ‘ روز اول سے مخلوق کے جس فرد کو جس کام اور ڈیوٹی پر لگا دیا گیا ہے وہ کبھی اس سے سرتابی کی جرأت نہیں کرتا ‘ سورج اپنی تمازت سے دنیا کو رزق پہنچا رہا ہے ‘ چاند اپنی حلاوت کے خزانے لٹا رہا ہے ‘ سمندر آب رسانی کا فرض انجام دے رہے ہیں ‘ ہر سایہ دار درخت سایہ بہم پہنچاتا اور ہر پھل دار درخت پھل کی دولت لٹاتا ہے۔ زمین روئیدگی کی قوت سے مالا مال ہے اور وہ اپنی خدمت سے کبھی صرف نظر نہیں کرتی۔ پہاڑ مختلف قسم کی امانتوں کے امین ہیں انھوں نے اپنا سینہ کھولنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔ غرضیکہ پوری کائنات اپنے خالق ومالک کی اطاعت میں پوری طرح مصروف عمل ہے اس اطاعت کا نتیجہ یہ ہے کہ کائنات میں کہیں خلل اور فساد کا نشان تک نظر نہیں آتا۔ کائنات کا ایک ایک فرد اپنے مالک کو پہچانتا بھی ہے اور اس کا اطاعت گزار بھی ہے۔ اس کے برعکس نوع انسانی کے افراد انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں میں بری طرح افراتفری ‘ بےچینی اور بےاطمینانی کا شکار ہیں۔ ہر ایک دوسروں کے حقوق چھین رہا ہے ‘ فرائض سے پہلوتہی کر رہا ہے ‘ نفسانیت کا پرستار اور اپنے مالک سے منحرف۔ نتیجتاً پوری زمین فساد سے بھر گئی ہے۔ پیغمبر اس لیے دنیا میں تشریف لاتے ہیں کہ وہ لوگوں کو یہ بتلائیں کہ دیکھو پوری کائنات اللہ کو اپنا خالق ومالک مان کر اور اس کے احکام کی تعمیل کے نتیجے میں نہایت عافیت سے زندگی گزار رہی ہے تم اگر چاہتے ہو کہ تمہاری اس سرزمین پر بھی خوشی اور راحت کے گیت گائے جائیں اور تمہاری زندگی نہایت آسودگی سے گزرے تو تمہیں بھی باقی کائنات کی طرح اپنے خالق ومالک کو پہچان کر اسی کی اطاعت میں لگ جانا چاہیے۔ تمہاری ساری پریشانیوں کا باعث صرف یہ ہے کہ تمام کائنات کا سفر اللہ کی اطاعت میں جاری ہے اور تم بالکل اس کے برعکس اس کی الٹی سمت میں اس کی معصیت کے سفر پر رواں دواں ہو۔ جس کے نتیجے میں قدم قدم پر تمہیں تصادم سے واسطہ پڑتا ہے اس لیے ہم تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ ایک ہی اللہ کو آقا مانو اور یہ یقین جانو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی آقا ‘ کوئی مالک اور کوئی حاکم حقیقی نہیں۔ اسی کی بندگی اور اطاعت میں زندگی گزارنے کا عہد کرلو اور پھر اس عہد کی تعمیل میں جت جاؤ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ باقی کائنات کی طرح تمہاری زندگی بھی آسودہ ہوجائے گی۔ اس دنیا میں بھی تمہیں فلاح و کامرانی سے نوازا جائے گا اور آخرت میں فرشتے تمہارا استقبال کریں گے اور اللہ کی بےپایاں اور دائمی نعمتیں تمہارا مقدر ہوں گی لیکن تم اگر اس سادہ سی بات کو نہیں سمجھتے ہو اور تم اپنے خالق ومالک کی اطاعت اور فرمانبرداری کی بجائے اس کی نافرمانی کا فیصلہ کرتے ہو اور بجائے اس کی اطاعت کرنے کے تم اپنے نفس اور اپنی خواہشات کی اطاعت میں زندگی گزارتے ہو تو پھر یاد رکھو اللہ تعالیٰ اپنی زمین پر رہنے والی اپنی مخلوق کو زیادہ دیر تک بغاوت کی اجازت نہیں دے سکتا۔ وہ تمہیں سمجھانے اور وارننگ دینے کے لیے اپنے نبی اور رسول بھیجتا ہے لیکن جب اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد بھی تم اپنا رویہ نہیں بدلتے ہو تو بالآخر اس کا عذاب کمر توڑ کے رکھ دیتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ” اَفَلَا تَتَّقُوْنَ کیا تم ڈرتے نہیں ہو “ یعنی تمہیں اس بات کا خوف نہیں کہ اگر تم نے اللہ کی بغاوت سے توبہ نہ کی اور اس کی اطاعت میں تم نے زندگی نہ گزاری تو تم اس بات سے نہیں ڈرتے ہو کہ وہ تم پر عذاب نازل کر دے اور تم پر ایسی گرفت فرمائے کہ تمہارے کس بل نکل جائیں اور قیامت کے دن تمہیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں پھینک دے ؟ اگر تمہارے اندر کچھ بھی احساس کی دولت باقی ہے اور اگر تمہارے دماغوں میں کچھ بھی عقل موجود ہے تو تمہیں اس انجام سے سو دفعہ ڈرنا چاہیے۔ اس کے بعد حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان جو مکالمہ ہوا ہے اس کے چند اجزاء کا ذکر فرمایا گیا ہے۔
Top