Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 64
فَكَذَّبُوْهُ فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ فِی الْفُلْكِ وَ اَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا عَمِیْنَ۠   ۧ
فَكَذَّبُوْهُ : پس انہوں نے اسے جھٹلایا فَاَنْجَيْنٰهُ : تو ہم نے اسے بچالیا وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مَعَهٗ : اس کے ساتھ فِي الْفُلْكِ : کشتی میں وَ : اور اَغْرَقْنَا : ہم نے غرق کردیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَانُوْا : تھے قَوْمًا : لوگ عَمِيْنَ : اندھے
بایں ہمہ لوگوں نے نوح (علیہ السلام) کو جھٹلایا پس ہم نے اسے اور ان سب کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی اور جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائی تھیں انہیں غرق کردیا ، حقیقت یہ ہے کہ وہ یک قلم اندھے ہوگئے تھے
قوم نے نوح (علیہ السلام) کی ایک نہ مانی اور نہ ماننے والوں کا جو انجام طے تھا وہ ہوگیا : 74: انجام کار وہ بات ہو کے رہی جس سے نوح (علیہ السلام) نے قوم کو متنبہ کیا تھا۔ جب قوم نے ایک بار تکذیب کردی اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی طویل جدو جہد کے بعد بھی اپنے رویے کی اصلاح پر آمادہ نہ ہوئی تو ان لوگوں کے سوا جنہوں نے نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو دل وجان سے قبول کیا اور اس کی کشتی میں سوار ہوگئے باقی سب کے سب کو اللہ نے غرق کر کے رکھ دیا۔ یہ کشتی اللہ کے حکم سے تیار کی گئی اور وحی الٰہی نے ہدایات کے مطابق کشتی تیار کروائی اور نوح (علیہ السلام) کو اس کشتی کے بنانے کا حکم دیا گیا۔ جب بنوا رہے تھے تو لوگ ان پر پھبتیاں کستے تھے کہ یہ شخص عقل کھو بھاق ہے کہ ایسا کام شرو ع کردیا جس کی کوئی ضرورت نظر نہیں آتی لیکن نوح (علیہ السلام) اللہ کی ہدایت کے مطابق کام کرتے کراتے رہے تا آنکہ وہ بیڑا مکمل ہوگیا اور اللہ نے آسمان و زمین پر حکم نازل فرمایا کہ بس اب پانی پانی کردیا جائے تو ایسا طوفان امڈا کہ وقت معین پر پانی پانی کر کے رکھ دیا گیا۔ یہ دجلہ وفرات کا درمیانی حصہ اس طوفان سے دو چار ہوگیا جسے طوفان نوح (علیہ السلام) کے نام سے آج بھی بچہ بچہ واقف ہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے کہ اس علاقے میں سوائے ان معدودے چند آدمیوں کے ایک انسان بھی نہ بچ سکا جس کی پیش گوئی نوح (علیہ السلام) کی زبان سے کرائی گئی تھی۔ نوح (علیہ السلام) کی دعوت ایک عرصہ بعید تک جاری رہی لیکن قوم نے سوائے چند معدودے چند آدمیوں کے ایک نہ مانی حتیٰ کہ نوح (علیہ السلام) کا ایک بیٹا اور بیوی بھی طوفان نوح (علیہ السلام) کی نذر ہوگئے۔ قرآن کریم کے بیان کے مطابق نوح (علیہ السلام) نے بیٹے کو کشتی پر سوار ہونے کی دعوت دی جس کو بیٹے نے تسلیم نہ کیا اور انجام کار نوح (علیہ السلام) کی آنکھوں کے سامنے آپ کا لخت جگر ڈوب کر رہ گیا۔ آپ (علیہ السلام) کی داستان بہت سبق آموز اور دردناک ہے لیکن اس جگہ بالکل اختصار سے بیان کی گئی ہے اس کی تفصیل انشاء اللہ کسی دوسرے مقام پر ہوگی۔ نوح (علیہ السلام) کی کشتی کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ تین منزل اونچی تھی اور اس کی پیمائش کے متعلق تورات کا بیان اس طرح ہے کہ ” اس کی لمبائی تین سو ہاتھ اور اس کی چوڑائی پچاس ہاتھ اور اس کی اونچائی تیس ہاتھ کی تھی۔ “ (پیدائش 6 : 15 ) اور تورات ہی کے بیان کے مطابق یہ جہاز 150 دن یعنی پانچ مہینے برابر پانی پر چلتا رہا۔
Top