Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 116
اِنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ؕ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَهٗ : اس کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین يُحْيٖ : وہ زندگی دیتا ہے وَيُمِيْتُ : اور وہ مارتا ہے وَمَا لَكُمْ : اور تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مِنْ : سے وَّلِيٍّ : کوئی حمایتی وَّلَا نَصِيْرٍ : اور نہ مددگار
بلاشبہ اللہ ہی ہے جس کی آسمانوں اور زمین پر بادشاہی ہے۔ وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے اور اللہ کے سوا تمہارے لیے نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مدد گار
اِنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَاْلاَ رْضِ ط یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ط وَمَالَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَانَصِیْرٍ (التوبہ : 116) (بلاشبہ اللہ ہی ہے جس کی آسمانوں اور زمین پر بادشاہی ہے۔ وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے اور اللہ کے سوا تمہارے لیے نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مدد گار۔ ) آیتِ توحید سابقہ تین آیات کریمہ میں توحید کی تعلیم دیتے ہوئے ان باتوں کی نشاند ہی فرمائی ہے۔ جن میں احتیاط نہ کرنے سے تصور توحید کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اگر ان میں احتیاط برتی جائے تو عقیدہِ ٔ توحید میں پختگی اور تکمیلِ توحید کے تصورات میں کوئی کمی باقی نہیں رہتی۔ در حقیقت توحید کے وہ پہلو جن کا تعلق اعمال سے ہے۔ اگر قوت عمل میں کمزوری نہ ہو تو ان کا حق ادا کرنا ممکن ہے۔ لیکن توحید کا وہ پہلو جس کا تعلق دماغی تصورات قلبی احساسات اور دل میں اٹھنے والی کیفیات سے ہے۔ اس کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا۔ جب تک آدمی اللہ کی ذات کو اپنا ملجا و ماویٰ اور اس کی رضا کو منتہائے مقصود نہیں بنا لیتا۔ چناچہ سابقہ تین آیات میں اسی پہلو پر زور دیتے ہوئے حکم دیا گیا کہ اگر تمہارا کسی سے نسبی رشتہ ہو یا رنگ و نسل کی گرہ میں بندھے ہوئے ہو یا تمہارا کسی سے مفادات کا اشتراک ہو۔ لیکن وہ شخص اللہ اور اس کے دین کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو اس سے نہ صرف تمہارا کوئی رشتہ نہیں بلکہ وہ تمہارے لیے ایک اجنبی شخض ہے جس کی مغفرت کی دعا بھی نہیں کرسکتے۔ وہ تمہارا بھائی بھی ہو تو تم اس کی سفارش بھی نہیں کرسکتے ہو تمہارے لیے بس یہ ایک بات کفایت کرتی ہے کہ : توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے دل کی کیفیات اور احساسات کو مزید پاکیزہ بنانے کے لیے یہ بھی اِ رشاد فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر حد درجہ رحیم و کریم ہے۔ یہ اس کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو آخرت کے عذاب سے بچانے اور جنت کا مستحق بنانے کے لیے پوری طرح یہ بات واضح فرما دی کہ میں نے انسان کو وہ سب کچھ عطا کردیا ہے جس سے وہ اپنے اللہ کی رضا کے راستے کو آسانی سے پہچان سکتا ہے۔ میں نے اسے عقل سلیم دی ہے۔ اس پر اپنی کتابیں اتاری ہیں اوراس کی راہنمائی کے لیے رسول بھیجے ہیں اور اگر اس کے بعد بھی کوئی شخص سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے اور اندھیروں کا مسافر بن جاتا ہے۔ تو ایسے شخص کا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ اب نہ صرف وہ شخص راندہ درگاہ ہوجاتا ہے بلکہ جو شخص اس کے ساتھ چلتا ہے اور اس کی ہم نوائی کرتا ہے۔ وہ بھی اپنی قسمت پھوڑ لیتا ہے۔ یہ ساری باتیں کہنے اور توحید کو نقطہ کمال تک پہنچانے کے بعدپیشِ نظر آیت میں (جسے آیت توحید کہنا چاہیے) یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تم نے کمال توحید کو حاصل کرنے کے لیے جو پر اسس دیکھا ہے اور جو تفصیلات پڑھی ہے۔ یہ اس ذات خدا بندی کا فیصلہ ہے۔ جس کی حاکمیت اور بادشاہت زمین و آسمان پر حاوی ہے۔ زندگی اور موت جس کے قبضے میں ہیں وہی تنہا اس کائنات کا مالک اور حاکم ہے۔ اس کے فیصلوں کے سامنے چون و چرا کی گنجائش نہیں وہ ہی تمہارا حامی اور وہی مددگار ہے۔ اسی کی ہدایت کو حرز جان اور وظیفہ عمل بنائو۔
Top