Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 115
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ هَدٰىهُمْ حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ مَّا یَتَّقُوْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُضِلَّ : کہ وہ گمراہ کرے قَوْمًۢا : کوئی قوم بَعْدَ : بعد اِذْ هَدٰىھُمْ : جب انہیں ہدایت دیدی حَتّٰي : جب تک يُبَيِّنَ : واضح کردے لَھُمْ : ان پر مَّا : جس يَتَّقُوْنَ : وہ پرہیز کریں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے لوگوں کو ہدایت دینے کے بعد پھر گمراہی میں مبتلا کرئے جب تک ان کو صاف صاف بتا نہ دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا چاہیے۔ بیشک اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے
وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِلَّ قَوْمًا م بَعْدَ اِذْھَدٰھُمْ حَتّٰی یُبَیِّنَ لَہُمْ مَّایَتَّقُوْنَ ط اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ (التوبہ : 115) (اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے لوگوں کو ہدایت دینے کے بعد پھر گمراہی میں مبتلا کرئے جب تک ان کو صاف صاف بتا نہ دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا چاہیے۔ بیشک اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ ) ایک حقیقت کا افشاء اس آیت کریمہ میں ایک بہت بڑی حقیقت سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ افراد اور اقوام کی نجات اور سرفرازی کا دور مدار اللہ کی ہدایت کی پیروی پر ہے اور یہ اس کا قانون ایسا اٹل ہے کہ جس میں کسی کمی بیشی کا سوال پیدا نہیں ہوسکتا حتی کہ ان لوگوں کے لیے استغفار سے بھی روک دیا گیا ہے۔ جو کفر اور شرک کی حالت میں مرتے ہیں۔ اس معاملے کی سنگینی اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے۔ دل میں یہ خیال آتا ہے کہ انسان کے بنائو اور بگاڑ کا نتیجہ اگر اتنا خو فناک ہے۔ تو پروردگار نے ایسے سخت امتحان میں انسان کو کیوں مبتلا کیا۔ جب کے اس کی عقل کی نا رسائی پر خود اس کی عقل گواہ ہے اور اس کا ارداہ کتنے منفی جذبات سے مقہور واقع ہوا ہے اور اس کی خواہشات کی دنیا اپنے اندر ایسی بےپناہ اپیل رکھتی ہے کہ ہر قدم پر لڑکھڑا جانے کے اندیشے ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ انسان کے دل و دماغ کو ایسا راست رو بنادیا جاتا کہ اس کے لیے غلطی کرنا اور گمراہی میں مبتلا ہونا آسان نہ ہوتا۔ اس واہمے کو دور کرنے کے لیے فرمایا جارہا ہے کہ گمراہی کا عمل انسان کی ہدایت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی انسانی گروہ کو کبھی گمراہی کے حوالے نہیں کرتا بلکہ اس نے انسان کے اندر ایسی عقل پیدا فرمائی ہے کہ اگر اس عقل کو بگاڑ نہ دیا جائے اور اسے صحیح کام کرنے کا موقع دیاجائے۔ تو وہ ہمیشہ صحیح راستہ اختیار کرتی ہے۔ رہی وہ چیزیں جو عقل کی رسائی سے باہر ہیں۔ ان کی راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی کتابوں کے ذریعہ انسان کو فکر صحیح عطا کرتا ہے پھر محسوس راہنمائی کے لیے اپنے رسول بھیجتا ہے جو قدم قدم پر نہ صرف اپنی فکر بلکہ اپنے عمل کے چراغ بھی روشن کرتے ہیں۔ انسان کو اگر ایک طرف فکر صحیح سے نوازا جاتا ہے تو دوسری طرف ان منفی عوامل کی بھی خبر دی جاتی ہے جن سے بچنا انسان کے لیے ازبس ضروری ہے۔ اس طرح مثبت اور منفی دونوں طرح کے حقائق کو واضح کرنے کے بعد انسان کو مکلف بنایا گیا ہے کہ تم زندگی کی شاہراہ پر سفر شروع کرو اور یہ یاد رکھو کہ اگر تم نے حق کی ہدایت کی پیروی کی تو ہم اس کی آسانیاں تمہارے لیے پیدا کردیں گے اور اگر تم نے مخالفت کی رواش اپنائی اور گمراہی کا راستہ اختیار کیا تو ہم تمہارے لیے وہ راستہ آسان کردیں گے۔ تاکہ تم آزادانہ مرضی سے جدہر جانا چاہو جا سکو۔ ان دونوں امکانات کی موجودگی میں جو شخض برائی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو وہ روشنی کو دیکھتے ہوئے اندھیرے کی طرف بڑھتا ہے۔ عافیت کو چھوڑ کر مصیبت کو اختیار کرتا ہے۔ ایسا شخص ظاہر ہے کسی رحم کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ اس اصول کو سمجھ لیا جائے تو قرآن کریم نے جہاں کہیں بھی ہدایت اور ضلالت کو اپنی طرف سے منسوب کیا ہے۔ اس کا مفہوم دونوں طرف کے چلنے والوں کے لیے آسانیاں فراہم کرنا ہے۔ جو شخض نیکی اور برائی کی پوری طرح وضاحت کے بعد گمراہی کو اختیار کرتا ہے وہ خود اس راستے پر پڑتا ہے جو جہنم کی طرف جاتا اور اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ ہر چیز کو جاننے والا ہے ہر شخص کے ارادوں اور اس کے قلبی احساسات سے بھی واقف ہیں اس لیے جب وہ کسی کو نوازتا ہے تو بےسبب نہیں نوازتا ہے اور جب کسی کو سزا دیتا ہے تو ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ اس کے اعمال کا بدلہ دیتا ہے۔ اس آیت کے نزول کے وقت امت مسلمہ اپنے شباب کو پہنچ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس امت سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اللہ نے تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت کو تمام کردیا ہے۔ راہنمائی کو ہر طرح مکمل کردیا گیا ہے۔ اب اگر تم نے بگاڑ، گمراہی یا کجروی اختیار کی تو اس کا انجام تمہارے لیے اچھا نہ ہوگا۔ کیونکہ تم پر ایک ایک چیز واضح کردی گئی ہے۔ اب غلط راستہ اختیار کرنے کی ذمہ داری تم پر ہوگی۔ جس کا تم کو خمیاز ہ بھگتنا ہوگا۔ دنیا میں ذلت کے حوالے کر دئے جاؤ گے اور آخرت میں بدترین عذاب تمہارے انتظار میں ہوگا۔
Top