Baseerat-e-Quran - Hud : 34
وَ مَا لَهُمْ اَلَّا یُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَ هُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ مَا كَانُوْۤا اَوْلِیَآءَهٗ١ؕ اِنْ اَوْلِیَآؤُهٗۤ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور کیا لَهُمْ : ان کے لیے (ان میں) اَلَّا : کہ نہ يُعَذِّبَهُمُ : انہیں عذاب دے اللّٰهُ : اللہ وَهُمْ : جبکہ وہ يَصُدُّوْنَ : روکتے ہیں عَنِ : سے الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَمَا : اور نہیں كَانُوْٓا : وہ ہیں اَوْلِيَآءَهٗ : اس کے متولی اِنْ : نہیں اَوْلِيَآؤُهٗٓ : اس کے متولی اِلَّا : مگر (صرف) الْمُتَّقُوْنَ : متقی (جمع) وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور ایسی ان میں کون سی بات ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے گا جب کہ وہ لوگوں کو مسجد حرام سے روکتے ہیں حالانکہ وہ اس کے مالک نہیں ہیں ۔ اس کے متولی تو ان کو ہونا چاہیے تھا جو تقویٰ اختیار کرنے والے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
آیات : 34 تا 40 لغات القرآن۔ مکاء۔ سیٹیاں۔ تصدیۃ۔ (صدی) ۔ تالیاں بجانا۔ لیصدوا۔ تاکہ وہ روک دیں۔ لیمیز۔ (یمیز) تاکہ وہ الگ الگ کردے۔ الخبیث۔ گندگی۔ الطیب۔ پاکیزگی۔ یرکم۔ (رحکم) ۔ وہ ڈھیر بنا دے گا۔ گٹھا بنا دے گا۔ ان ینتھوا۔ اور اگر وہ رک جائیں۔ سلف۔ گزر گیا۔ ان یعودوا۔ اور اگر وہ پلٹ جائیں۔ مضت۔ گزر گئی۔ سنت الاولین۔ پہلے لوگوں کا طریقہ۔ مولی۔ ستھی۔ نعم المولیٰ ۔ بہترین ساتھی۔ نعم النصیر۔ بہترین مددگار۔ تشریح : قریش مکہ نے خیر مانگے کے بجائے اللہ سے یہ مانگا کہ ان پر پتھروں کی بارش کردی جائے یا درد ناک عذاب بھیج دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بدر کے میدان میں زبردست شکست تمہارے لئے اس لئے عذاب الیم ہے کہ اس نے قریش کی دھاک ختم کردی اور وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے ان کے بہترین لیڈر اور کمانڈر یا مار دئیے گئے یا قید کر لئے گئے اور وہی مسلمان جن کو سب سے کمزور سمجھ لیا گیا تھا ہر ذہن پر چھا گئے تھے پتھروں کے مقابل میں ان کے لئے زیادہ سخت سزا اور عذاب ہے۔ ان آیات میں قریش مکہ کے چند اہم گناہ گنوائے گئے ہیں جو ان پر سخت سزاؤں کو جواز بھی بنتی ہیں یہ سزائیں غزورہ بدر سے شروع ہو کر فتح مکہ پر ختم ہوتی ہیں جو ان کمزور مسلمانوں کے ذریعہ ان کو دلوائی گئیں جن پر تیرہ سال تک عرب کی سرزین کو نہ صرف تنگ کردیا گیا تھا بلکہ ان سے ہر خوشی کو چھین لینے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان کے گناہوں کی فہرست تو طویل ہے چند گناہوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ 1) ان کا پہلا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے گھر اور مسجد حرام میں اللہ کا نا م لینے اور بیت اللہ کے طواف سے مسلمانوں کو روکا، انکا گھمنڈ یہ تھا کہ وہ مسجد حرام کے متولی ہیں ان کا یہ اختیار ہے کہ جس کو چاہیں آنے دیں اور جس سے ناراض ہوں اس کو اس سے روک دیں۔ قرآن کریم کا جواب یہ ہے کہ مسجد حرام اور بیت اللہ کسی شخص یا قوم کی ذاتی ملکیت نہیں ہے ناسمجھ بچے، دیوانے، جھگڑنے والے اور بےحرمیت کرنے والے اور کافروں کے سوا کسی کو اللہ کے گھر میں داخل ہونے سے روکنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے دوسرے یہ کہ مسجد کا متولی اور منتظم وہی ہوسکتا ہے جو پرہیز گار ہو۔ فرمایا کہ موجودہ قریش نے پرہیز گار ہیں نہ دین دار کوئی اللہ کا نام لیتا تو اس کو ہر اساں کرنے کے لئے سیٹیاں بجانا تالیاں پیٹنا ننگے ہو کر طواف کرنا ہر ظلم و جبر کے طریقے کو اختیار کرنا۔ کیا ان کی یہی عبادت ہے ؟ قریش کی جنگی دھاک اور ہیبت تو میدان بدر میں ختم ہو کر رہ گئی تھی اب عرب قبائل پر انکی دھونس تھی وہ یہ تھی کہ ہم خانہ کعبہ کے متولی ہیں اس لئے منظور نظر ہیں اس کو بھی قرآن کریم کے اس جواب نے ہلا کر رکھ دیا کہ مسجد کا متولی ظالم و جابر اور بدکار نہیں ہوسکتا۔ پھر اللہ نے ان کی نماز کے متعلق بیان کرکے کہ وہ سیٹیاں اور تالیاں پیٹنے کو عبادت سمجھتے ہیں یہ واضح فرمادیا کہ یہ انتہائی غلط اور ناسمجھی کی بات ہے۔ اللہ کے اس ارشاد نے ان کی عبادت کے ڈھول کا پول کھول کر رکھدیا۔ 2) قریش کا دوسرا گناہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے مسلمانوں کے خلاف نہ صرف سازشیں کرتے ہیں بلکہ یہ کفار و مشرکین بار بار مال و دولت جمع کرتے ہیں۔ اور اللہ کے راستے سے روکنے پر خرچ کرتے ہیں چناچہ جنگ بدر، احد اور احزاب میں انہوں نے بہت سرمایہ لگا یا اور گنوایا۔ سوائے حسرت و افسوس اور پچھتاوے کے ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ فرمایا کہ یہ لوگ اپنا سرمایہ مال دولت اسی طرح اسلام دشمنی میں لگاتے رہیں گے اور گنواتے رہیں گے مگر ہر کوشش کا نتیجہ ان کی توقع کے برعکس ہی نکل رہا ہے اور نکلتا رہے گا۔ فرمایا کہ ” ایک دن وہ مغلوب ہر کر رہیں گے ” ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کی پیشن گوئ فرما دی ہے اور دوسری پیشن گوئی یہ فرما دی ہے کہ کفار ایک دن جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو انبار در انبار جمع کرکے ان کو گندگی کا ڈھیر بنا دے گا۔ اور پھر اس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے گا۔ یہ آیت ایک طرف آیت وعید ہے اور دوسری طرف آیت وعدہ ہے۔ فرمایا ” اے نبی ﷺ ! ان سے کہہ دیجئے کہ تم اپنی نیچ حرکتوں سے باز آجائو۔ اگر تم باز آگئے اور ان حرکتوں سے رک گئے تو اب تک جو کچھ کرچکے ہو اللہ اسے معاف فرما دے گا اور آیت وعدہ کے ساتھ دعوت بصیرت و عبرت بھی ہے۔ ” اگر وہی حرکتیں کرو گے تو دیکھ لو پہلی قوموں کے ساتھ اللہ کا کیا معاملہ ہوا ہے “۔ ان آیات میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گیء ہے کہ اے مومنو ! تم اس وقت تک قتال و جہاد کرتے رہو جب تک فتنہ دنیا سے مٹ نہ جائے۔ سورة بقرہ کی آیات نمبر 193 میں ارشاد ہے کہ ” تم ان سے قتال کرتے رہو یہاں تکہ کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لئے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سو اور کسی سے دست درازی جائز نہیں ہے۔ ان آیات میں اور قرآن کریم کی متعدد آیات میں نہ صرف جہاد بلکہ قتال (جنگ) کو عین عبادت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ایک بات یاد رہنی چاہیے کہ اسلام دنیا سے کفارو مشرکین کو نہیں بلکہ کفر شرک کے فتنے کو مٹانے کی بات کرتا ہے۔ کیونکہ اسلام انسانوں سے نہیں مشرکین مملکت اسلامیہ میں رہتے ہیں تو شوق سے رہیں ان کو اپنے عقیدے پر چنے کی اور عبادت کرنے اور زندگی کے اسباب مہیا کرنے کی آزادی ہے۔ اگر وہ فتنہ پیدا نہ کر رہے ہوں تو ان سے قتال کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر وہ فتنہ اٹھا رہے ہوں اور اسلامی قوانین کے نفاذ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کر رہے ہوں تو ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے انتہائی اقدامات کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر وہ جزیہ دے کر پر امن شہری بن کر رہتے ہیں تو ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت اسلامی مملکت کی ذمہ داری ہے۔ آیت نمبر 39 میں فرمایا گیا کہ : اس کی بہترین تفسیر حضرت محمد ﷺ کا یہ ارشاد ہے جس کو بخاری ومسلم میں نقل کیا گیا ہے آپ نے فرمایا۔ مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے کہ دشمنان اسلام سے اس وقت تک جہاد کرتا رہوں جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کلمے کو قبول قبول نہ کرلیں۔ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور جب وہ ایسا کریں گے تو ان کے خون اور مال و آبرو سب محفوط ہوجائیں گے۔ البتہ اسلامی قانون کے ماتحت کسی جرم کی وجہ سے ان کو سزا دی جاسکتی ہے۔ ان کے دلوں کا حساب اللہ پر ہے گا کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ اور اعمال اسلام کو قبول کررہے ہیں یا یہ نفاق کی کوئی چال ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر انہوں نے محض اپنی جان بچانے کی خاطر یا کسی جنگی یا سیاسی مصلحت کے طور پر اسلام لانے کا اقرار کیا ہے تو پھر بھی اللہ کا حکم ہے انہیں امان دی جائے۔ اور ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کیا جائے جب تک پورے طور پر ان کی منافقت ثابت نہ ہوجائے۔ اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے۔ اللہ ہی ان کے لئے بہتر فیصلہ فرما سکتا ہے۔ یہ حسن اتفاق اور دین اسلام کی جاذبیت ہے کہ تاریخ میں اب تک ایسا نہیں ہوا کہ گروہ کے گروہ نے منافقت کے ارادے سے کلمہ پڑھا ہو۔ انفرادی طور پر بھی منافقت کا ارادہ بہت شاذو نادر ہے۔ ابو دائود میں مختلف صحابہ کرام ؓ سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص کسی معاہدہ پر (یعنی ایسے شخص پر جس نے اسلامی حکومت کی اطاعت اور وفاداری کا عہد کرلیا ہو) ظلم کرے یا اس کو نقصان پہنچائے یا اس سے کوئی ایسا کام لے جو اس کی طاقت اور ہمت سے بڑھ کر ہو یا اس کی کوئی چیز اس کی دلی رضا مندی کے بغیر حاصل کرلے تو میں قیامت کے دن اس مسلمان کے خلاف اس معاہدہ شخص کی حمایت کروں گا۔ آیت نمبر 40 میں فرمایا گیا ہے کہ : اگر کوئی معاہد فرد یا جماعت اپنے معادہ سے پھرجائے۔ یا اگر مشرکین و کفار اپنی پست حرکتیں جاری رکھیں تو اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے اللہ تعالیٰ تمہارا بہترین حامی و ناصر ہے۔ جب تمہیں اس کی حمایت و نصرت حاصل ہے تو اس میں ان دشمنان اسلام سے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔
Top