Tafseer-e-Saadi - Maryam : 39
وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ١ۘ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
وَاَنْذِرْهُمْ : اور ان کو ڈراویں آپ يَوْمَ الْحَسْرَةِ : حسرت کا دن اِذْ : جب قُضِيَ : فیصلہ کردیاجائیگا الْاَمْرُ : کام وَهُمْ : لیکن وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں ہیں وَّهُمْ : اور وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
اور ان کو حسرت و افسوس کے دن سے ڈراؤ جب بات فیصل کردی جائے گی اور (ہیہات) وہ غفلت میں (پڑے ہوئے ہیں) اور ایمان نہیں لاتے
آیت 39 کسی خوفناک معاملے میں، ترہیب کے پہلو سے اس کی صفات بیان کر کے آگاہ کرنا ” انذار “ ہے۔ اور وہ معاملہ جس کے بارے میں بندوں کو سب سے زیادہ ڈرایا جانا چاہیے وہ ” حسرت کا دن “ ہے جب فیصلہ کیا جائے گا۔ پس اولین و آخرین ایک ہی جگہ اکٹھے کئے جائیں گے اور ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پس جو کوئی اللہ پر ایمان لایا اور اس کے رسولوں کی اتباع کرتا رہا تو وہ ابدی سعادت سے بہرہ مند ہوگا اس کے بعد کبھی اسے بدبختی کا اسمنا نہیں کرنا پڑے گا اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لایا اور اس کے رسولوں کی پیروی نہ کی تو وہ بدبختی میں پڑے گا اور اس کے بعد نیک بختی اس کے حصے میں نہیں آئے گی اور اس نے اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو خاسرے میں ڈال دیا۔ پس اس وقت حسرت اور ندامت سے دل پارہ پارہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت سے محرومی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم کے استحقاق سے بڑھ کر کون سی حسرت ہوسکتی ہے، جہاں دوبارہ عمل کرنے کے لئے واپسی ممکن نہ ہو اور دنیا میں دوبارہ آ کر اپنے احوال کے بدلنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔ یہ سب کچھ انہیں پیش آئے گا مگر ان کی حالت یہ ہے کہ وہ دنیا میں اس عظیم معاملے کے بارے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، اس کے بارے میں انہیں کبھی خیال ہی نہیں آیا اور اگر انہیں کبھی خیال آیا بھی ہے تو وہ بھی غفلت میں۔ غفلت نے ان کو گھیر رکھا ہے اور مدہوشی ان پر غالب ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں نہ اس کے رسولوں کی اتباع کرتے ہیں۔ ان کی دنیا نے ان کو غافل کردیا، ان کے اور ان کے ایمان کے درمیان ختم ہوجانے والی فانی شہوات حائل ہوگئیں۔ یہ دنیا اور اول سے لے کر آخر تک دنیا کی تمام چیزیں دنیا داروں کو چھوڑ جائیں گی اور وہ دنیا کو چھوڑ کر چل دیں گے اور زمین اور اس میں موجود تمام چیزوں کا وارث اللہ تعالیٰ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی طرف لوٹائے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ وہ ان اعمال میں خاسرہ اٹھائیں گے یا نفع میں رہیں گے، لہٰذا جو کوئی نیک کام کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کرنی چاہیے اور جس کے اعمال اس سے مختلف ہیں اسے اپنے نفس کے سوا کسی کو ملامت نہیں کرنی چاہیے۔
Top