بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Saadi - Al-Qasas : 1
طٰسٓمّٓ
طٰسٓمّٓ : طا۔ سین۔ میم
طسم
تفسیر سورة القصص (آیت 1 (تلک) یہ آیات جو تعظیم و توقیر کی مستحق ہیں۔ (ایت الکتب المبین) کتاب مبین کی آیات ہیں ہر اس معاملے کو کھول کھول کر بیان کتی ہیں جن کے بندے حاجت مند ہیں، مثلاً رب تعالیٰ کی معرفت، اس کے حقوق کی معرفت، اس کے اولاء و اعداء کی معرفت، اس کے ایام و وقائع کی معرفت اعمال کے ثواب اور عمل کرنے والوں کی جزا کی معرفت۔ قرآن مجید نے ان تمام امور کو کھول کھول کر بیان کرکے بندوں کے سامنے پوری طرح واضح کردیا۔ اس کے جملہ مضامین میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا قصہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کھول کھول کر بیان کیا ہے اور متعدد مقدمات پر اس کا اعادہ کیا ہے اور اس مقام پر بھی اس قصے کو تفصیل سے بیان کیا ہے، چناچہ فرمایا : (آیت) ” ہم تمہیں موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے کچھ حالات صحیح صحیح سناتے ہیں۔ “ کیونکہ ان کے واقعات بہت ہی انوکھے اور ان کا قصہ نہایت تعجب انگیز ہے۔ (آیت) ” مومن لوگوں کے لئے “ پس انہی کو خطاب کیا گیا ہے اور کلام کا رخ بھی انہی کی طرف ہے۔ کیونکہ انہی کے پاس، ایمان ہے جس کی بنا پر وہ اس میں تدبر کرتے ہیں، اسے قبول کرتے ہیں اور عبرت کے مواقع پر اس سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور ان کے ذریعے سے ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی نیکیاں نشونما پاتی ہیں۔ رہے ان کے علاوہ دیگر لوگ تو وہ ان سے استفادہ نہیں کرسکتے۔ سوائے اس کے کہ ان پر حجت قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دور رکھا ہے، اپنے اور ان کے درمیان پردہ حائل کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اس کو سمجھنے سے عاری ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے قصہ کی ابتداء اس طرح ہوتی ہے (آیت) ” کہ بلاشبہ فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا۔ “ یعنی ان کو متفرق گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق ان میں تصرت کرتا تھا اور اپنے قہر اور تسلط کے بل بوتے پر جو حکم چاہتا نافذ کرتا تھا۔ (آیت) ” ان میں سے ایک گروہ کو کمزور کردیا تھا۔ “ اس گروپ سے مراد بنی اسرائیل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ اس کے لئے مناسب یہی تھا کہ وہ ان کی عزت و تکریم کرتا مگر اس نے ان کو زیر دست بنا کر ذلیل کیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کو روکنے والا اور اس کے ارادوں میں حائل ہونے والا کوئی نہیں ہے۔ اس لئے وہ ان کی کوئی پروا نہیں کرتا تھا اور نہ وہ ان کے معاملے کو کوئی اہمیت ہی دیتا تھا اور حالت یہاں چک پہنچ گئی کہ (آیت) ” وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا۔ “ اس خوف سے کہین ان کی تعداد زیادہ نہ ہوجائے اور اس کے ملک مکیں وہ غالب آکر کہیں اقتدار کے مالک نہ بن جائیں۔ (آیت) ” یعنی وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا مقصد اصلاھ دین ہوتا ہے نہ اصلاح دنیا اور اس کا مقصد زمین میں اس کی طرف سے بگاڑ پیدا کرنا تھا۔ “ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ ملک میں کمزور کردئیے گئے ہیں ان پر احسان کریں۔ “ کہ ان پر سے ذلت کے تمام نشانات مٹادیں اور ان لوگوں کو ہلاک کردیں جو ان کے ساتھ دشمنی کرتے تھے اور انہیں تنہا چھوڑدیں جو ان کی مخالفت کرتے تھے۔ (آیت) ” اور (دین میں) ہم ان کو امام بنادیں “ اور یہ چیز زیر دست رہتے ہوئے حاصل نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کو زمین میں اقتدار اور پورا اختیار عطا کیا جائے۔ (آیت) ” اور ہم ان کو زمین کا وارث بنادیں “ جن کا آخرت سے پہلے ہی دنیا میں اچھا انجام ہو۔ (آیت) ” اور ملک میں ان کو قدرت دیں۔ “ ان تمام امور کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمالیا ان پر اس کی مشیت جاری ہوگئی۔ (و) ” اور “ ہم اسی طرح چاہتے تھے کہ (آیت) ” فرعون، (اس کے وزیر) ہامان اور ان کے لشکروں کو (جن کی مدد سے وہ ظلم اور بغاوت اور سرکشی کرتے تھے) (منھم) یعنی اس کمزور گروہ کی طرف سے۔ (ماکانوا یحذرون) ” وہ چیز جس سے وہ ڈرتے تھے۔ “ یعنی ان کو ان کے گھروں سے نکال دینا۔ اس لئے وہ ان کا قلع قمع کرنے، ان کی شوکت کو توڑنے اور ان کے بیٹوں کو قتل کرنے میں کوشاں تھے کیونکہ ان کے بیٹے ان کی طاقت اور شوکت کا سبب تھے۔ ان تمام امور کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا اور جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کے اسباب کو آسان اور اس کی راہ کو ہموار کردیتا ہے۔ یہ معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب جاری فرمائے جس کو اس کے اولاء جانتے تھے نہ اعداء۔۔۔ جو اس مطلوب و مقصود تک رسائی کا ذریعہ بن گئے۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول موسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا جن کے ذریعے سے بنی اسرائیل کے گروہ کو نجات دلانا تھی، ان کی پیدائش انتہائی خوف کے حالات میں ہوئی کہ جب وہ اسرائیلی بیٹوں کو ذبح کردیا کرتے تھے۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی طرف وحی کی کہ وہ اپنے بیٹے (موسیٰ علیہ السلام) کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں اپنے پاس رکھیں (آیت) ” اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو “ یعنی جب کسی ایسے شخص کی آمد کا خطرہ محسوس کریں جو اسے فرغون کے پاس لے جائے۔ (آیت) ” تو اسے دریا میں بہادینا “ یعنی ایک صندوق میں بند کرکے دریائے نیل میں ڈال دینا۔ (آیت) ” اور نہ خوف اور غم کھانا بیشک ہم اس بچے کو تیری ہی طرف لوٹادیں گے اور اسے اپنا رسول بنائیں گے۔ “ پس اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو خوشخبری سنادی کہ وہ اس بچے کو ان کے پاس واپس لوٹادے گا، یہ بچہ بڑا ہوگا اور ان کی سازشوں سے محفوظ رہے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو رسول بنائے گا۔ یہ بہت بڑی اور جلیل القدر بشارت ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو دی گئی تاکہ ان کا دل مطمئن اور ان کا خوف زائل ہوجائے۔ چناچہ انہوں نے وہی کچھ کیا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ اس صدوق کو حفاظت کے ساتھ چلاتا رہا۔ حتیٰ کہ فرعون کے گھر والوں نے اسے نکال لیا گویا وہ ان کے لئے راستے میں پڑا ہوا بچہ بن گیا جنہوں نے اسے نکالا تھا اور وہ اسے پاکر بہت خوش ہوئے (آیت) تاکہ ان کی عاقبت اور انجام یہ ہو کہ اٹھایا ہوا بچہ ان کا دشمن اور ان کے لئے حزن و غم اور صدمے کا باعث بنے، اس کا سبب یہ ہے کہ تقدیر الہٰی کے مقابلے میں احتیاط کام نہیں آتی۔ وہ چیز جس کے بارے میں وہ بنی اسرائیل سے خائف تھے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا کہ ان کا قائد ان کے ہاتھوں میں، ان کی نظروں کے سامنے اور ان کی کفالت میں تربیت ہائے۔ جب آپ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے میں غور و فکر کریں گے تو اس ضمن میں آپ پائیں گے کہ بنی اسرائیل کے لئے بہت سے مصالح حاصل ہوئے اور بہت سے پریشان کن امور سے انہیں چھٹکارا حاصل ہوا، اسی طرح آپ کو رسالت ملنے سے پہلے بنی اسرائیل پر سے بہت سے مظالم ختم ہوگئے، کیونکہ آپ مملکت فرعون کے ایک بڑے عہدے دار کی حیثیت سے رہتے تھے۔۔۔ چونکہ آپ ایک بلند ہمت اور انتہائی غیرت مند انسان تھے اسی لئے طبعی طور پر آپ کی قوم کے بہت سے حقوق کا دفاع ہونا ضروری تھا۔ آپ کی ضعیف اور کمزور قوم۔۔۔ جن کی کمزور و ناتوانی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے۔۔۔ کہ بعض افراد اس ظالم و غاصب قوم کے خلاف جھگڑنے لگے تھے جیسا کہ اس کا بیان آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ظہور کے مقدمات تھے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے کہ تمام امور آہستہ آہستہ اور بتدریج وقوع پذیر ہوتے ہیں، کوئی واقعہ اچانک رونما نہیں ہوتا۔ فرمایا : (آیت) یعنی یہ سب مجرم تھے اس لئے ہم نے ان کو ان کے جرم کی سزا دینے کا ارادہ کیا اور ہم نے ان کے مکر اور سازش کرنے کی پاداش میں ان کے خلاف چال چلی۔ پس جب فرعون کے گھر والوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا سے نکال لیا تو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی جلیل القدر اور مومنہ بیوی آسیہ بنت مزاحم کے دل میں رحم ڈال دیا۔ (آیت) ” وہ بولی “ یہ لڑکا (آیت) ” میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے “ یعنی اسے زندہ رکھ لو تاکہ اس کے ذریعے سے ہم اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اپنی زندگی میں اس کے ذریعے سے مسرت حاصل کریں۔ (آیت) ” شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنالیں۔ “ یعنی یہ بچہ ان خدام میں شامل ہوگا جو ہمارے مختلف کام کرنے اور خدمت سرانجام دینے میں کوشاں رہتے ہیں یا اس سے بلند تر مرتبہ عطا کرکے اسے اپنا بیٹا بنالیں گے اور اس کی عزت و تکریم کریں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مقدر فرمادیا کہ وہ بچہ فرعون کی بیوی کو فائدہ دے جس نے یہ بات کہی تھی۔ جب وہ بچہ فرعون کی بیوی کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن گیا اور اسے اس بچے سے شدید محبت ہوگئی اور وہ بچہ اس کے لئے حقیقی بیٹے کی حیثیت اختیار کرگیا یہاں تک کہ وہ بڑا ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو نبوت اور رسالت سے سرفراز فرمایا۔۔۔ تو اس نے جلدی سے ایمان لا کر اسلام قبول کرلیا۔ ؓ موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ان کے مابین ہونے والی مذکورہ گفتگو کی بابت اللہ نے فرمایا : (آیت) یعنی انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ لوح محفوظ میں کیا درج ہے تقدیر نے انہیں کسی عظیم الشان مقام پر فائز کردیا ہے اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے۔ اگر انہیں اس حقیقت کا علم ہوتا تو ان کا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا معاملہ کچھ اور ہی ہوتا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی والدہ سے جدا ہوگئے تو وہ بہت زیادہ غمگین ہوئیں۔ بشریٰ تقاضے کے مطابق صدمے اور قلق سے ان کا دل سخت بےقرار اور غم سے اڑا جارہا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو غم کرنے اور خوف زدہ ہونے سیر کو دیا تھا اور ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو واپس ان کے پاس لوٹادے گا۔ (آیت) ” تو قریب تھا کہ وہ اس (قصے) کو ظاہر کردیتی۔ “ یعنی دلی صدمے کی وجہ سے (آیت) پس ہم نے ان کو ثابت قدمی عطا کی اور انہوں نے صبر کیا اور اس راز کو ظاہر نہ کیا۔ (آیت) ” تاکہ ہوجائے وہ “ صبر و ثبات کو یاد رکھتے ہوئے (آیت) ” مومنوں میں سے “ جب بندہ مومن پر کوئی مصیبت نازل ہوجائے اور وہ اس پر صبر اور ثابت قدمی سے کام لے تو اس سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ بندے کا مصیبت کے وقت ہمیشہ بےصبری کا مظاہرہ کرنا ایمان کی کمزوری ہے۔ (آیت) موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے کہا (آیت) ” آپ کی بہن سے کہ اس بچے کے پیچھے پیچھے چلتی جاؤ۔ “ یعنی اپنے بھائی کے پیچھے پیچھے جا اور اس پر اس طرح نظر رکھ کہ کسی کو تمہارے بارے میں پتہ نہ چلے اور نہ تمہارے مقصد کا ان کو علم ہو۔ پس وہ ان کے پیچھے پیچھے چلتی رہی (آیت) یعنی وہ ایک طرف ہو کر اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھتی رہی گویا کہ وہ کوئی راہ گیر عورت ہے اور اس کا کوئی قصد و ارادہ نہیں ہے۔ یہ انتہا درجے کی حزم و احتیاط تھی اگر وہ بچے کو دیکھتی رہتی اور ایک قصد و ارادہ کے ساتھ آتی تو لوگ سمجھ جاتے کہ اسی عورت نے صندوق کو دریا میں ڈالا ہے اور وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو، ان کے گھر والوں کو سزا دینے کی خاطر، ذبح کردیتے۔ یہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کسی عورت کا دودھ پینے سے روک دیا، چناچہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ترس کھاتے ہوئے ان کو بازار میں لے آئے تاکہ شاید کوئی اسے تلاش کرتا ہوا آجائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اسی حال میں تھے کہ ان کی بہن آئی اور کہنے لگی : (آیت) ” کیا میں تمہیں ایسے گھر والے بتاؤں کہ تمہارے لئے اس (بچے) کی کفالت کریں اور اس کے خیر خواہ بھی ہوں۔ “ یہ ان کی سب سے بڑی غرض وغایت تھی کیونکہ وہ اس سے بہت شدید محبت کرتے تھے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام دودھ پلانے والیوں کو موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ممنوع کردیا تھا اس لئے انہیں ڈر تھا کہ کہیں بچہ مر نہ جائے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے وہ بات کہی اور ترغیب دی کہ وہ اس گھرانے کو دودھ پلانے کے لئے منتخب کریں جو بچے کی پوری حفاظت اور مکمل کفالت کے ذمہ دار اور اس کے خیر خواہ ہیں تو انہوں نے فوراً موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن کی بات مان لی اور اس گھر کا پتہ بتادیا جو بچے کو دودھ پلاسکتے تھے۔ (آیت) ” پس ہم نے ان (موسیٰ علیہ السلام) کو ان کی ماں کے پاس واپس پہنچادیا۔ “ جیا کہ ہم نے اس کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔ (آیت) ” تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کھائیں۔ “ کیونکہ اس کے پاس اس طرح پرورش پائے گا کہ وہ اس سے مطمئن اور خوش ہوگی اور اس کے ساتھ دودھ پلانے کی بہت بڑی اجرت بھی حاصل کرے گی۔ (آیت) ” اور یہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ “ ہم نے اس کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اس میں سے کچھ وعدہ پورا ہوتے اسے عیاں طور پر دکھادیا تاکہ اس سے اس کا دل مطمئن اور اس کے ایمان میں اضافہ ہو اور تاکہ وہ یہ بھی جان لے کہ ہم نے اس کی حفاظت کرنے اور اس کو رسول بنانے کا جو وعدہ کیا ہے وہ بھی ضرور پورا ہوگا۔ (آیت) ” لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ پس جب وہ کس سبب کو بےترتیب دیکھتے ہیں تو اس حقیقت سے کم علمی کی وجہ سے، کہ جلیل القدر معاملات اور بلند مقاصد و مطالب کے حصول سے پہلے انسان کو آزمائشوں اور مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے، ان کا ایمان ڈول جاتا ہے۔ پس موسیٰ (علیہ السلام) آل فرعون کے پاس شاہی ماحول میں تربیت پاتے رہے وہ شاہی سواریاں استعمال کرتے اور شاہی لباس پہنتے تھے۔ ان کی والدہ اس پر مطمئن تھیں یہ بات تسلیم کرلی گئی تھی کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) لہ رضاعی ماں ہیں۔ لہٰذا موسیٰ (علیہ السلام) کا (والدہ) کے ساتھ رہنے اور ان کے ساتھ مہربانی کرنے کا کسی نے انکار نہیں کیا۔ ذرا اللہ تبارک و تعالیٰ کے لطف و کرم پر غور کیجئے کہ اس نے کیسے اپنے نبی موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی بات چیت میں جھوٹ سے محفوظ رکھا اور معاملے کو ان کے لئے کتنا آسان کردیا جس کی بنا پر ماں بیٹے کے درمیان ایک تعلق قائم ہوگیا جو لوگوں کی نظر میں رضاعت کا تعلق تھا جس کی بنا پر موسیٰ (علیہ السلام) ان کو ماں کہتے تھے۔ اس لئے اس تعلق کے حوالے سے موسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر لوگوں کا اکثر کلام صداقت اور حق پر مبنی تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی پوری قوت اور عقل و فہم کو پہنچ گئے اور یہ صفت انسان کو غالب طور پر چالیس سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہے (آیت) اور ان مذکورہ صفات میں درجہ کمال کو پہنچ گئے (آیت) ” تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا کیا۔ “ یعنی ان کو ایسی دانائی عطا کی جس کی بناء پر انہیں احکام شرعیہ کی معرفت حاصل ہوگئی اور وہ نہایت دانائی کے ساتھ لوگوں میں فیصلہ کرتے تھے اور ان کو بہت سے علم سے نوازا (آیت) ” اور اسئی طرح ہم جزاء دیتے ہیں احسان کرنے والوں کو۔ “ اللہ تعالیٰ ان کے احسان کے مطابق علم اور حکمت سے سرفراز فرماتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ موسیٰ (علیہ السلام) کے کمال احسان پر دلالت کرتی ہے۔ (آیت) ” اور وہ ایسے وقت شہر میں داخل ہوئے کہ وہاں کے باشندے سو رہے تھے۔ “ یہ وقت یا تو قیلولے کا وقت تھا یا کوئی ایسا وقت تھا کہ جب لوگ آرام کرتے ہیں۔ (آیت) پس انہوں نے دو آدمیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑتے ہوئے پایا “ وہ دونوں ایک دوسرے کو مار رہے تھے۔ (آیت) ” ایک تو ان کی قوم سے تھا۔ “ یعنی بنی اسرائیل میں سے (آیت) ” دوسرا ان کے دشمنوں میں سے تھا۔ “ مثلاً قطبی وغیرہ۔ (آیت) ” پس جو شخص ان کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں، جو ان کے دشمنوں میں سے تھا، موسیٰ (علیہ السلام) سے مدد طلب کی۔ “ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کا نسب اب مشہور ہوچکا تھا اور لوگوں کو علم تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے اس شخص کا مدد کا خواستگار ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ آپ دارالاسطنت میں ایک نہایت اہم منصب پر فائر تھے جس سے لوگ خوف کھاتے تھے اور اس سے اپنی امیدیں بھی وابستہ رکھتے تھے۔ (آیت) موسیٰ (علیہ السلام) نے اسرائیلی کی مدد کرنے کے لئے اس دشمن شخص کو گھونسہ رسید کیا۔ (آیت) پس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوت اور گھونسے کی شدت نے اس قطبی کا کام تمام کردیا۔ اس پر آپ کو سخت ندامت ہوئی۔ آپ نے تاسف سے کہا : (آیت) ” یہ شیطان کا عمل ہے۔ “ یعنی شیطان نے وسوسہ ڈالا اور اس برائی کو مزین کردیا۔ (آیت) ” بیشک وہ دشمن اور صریح بہکانے والا ہے۔ “ اسی لئے اس کی کھلی عداوت اور بندوں کو گمراہ کرنے کی حرص کے سبب سے یہ حادثہ پیش آیا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے رب سے بخشش طلب کرتے ہوئے عرض کیا (آیت) ” اے میرے رب ! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے، پس اللہ نے اسے بخش دیا، بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ “ خاص طور پر جو اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور فروتنی کرتے ہیں اور توبہ وانابت کے ساتھ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے قتل ہوا اور آپ نے فوراً استغفار کرلیا۔ (قال) موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا : (آیت) ” اے رب ! بہ سبب اس کے جو تو نے مجھ پر انعام کیا۔ “ تو نے مجھے قبول توبہ، مغفرت اور بیشمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا (آیت) تو میں ہرگز مددگار نہیں ہوگا (للمجرمین) ” گناہ گاروں کا “ یعنی معاصی میں کسی کی مدد نہیں کروں گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عنایت و احسان کے سبب موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے وعدہ ہے کہ وہ کسی مجرم کی مدد نہیں کریں گے جیسا کہ وہ قبطی کے قتل کے سلسلے میں کرچکے ہیں۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بندے سے نیکی کرنے اور برائی ترک کرنے کا تقاضا کرتی ہیں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ سے وہ شخص قتل ہوگیا جو آپ کے دشمن گروہ سء تعلق رکھتا تھا (آیت) ” تو وہ صبح کے وقت شہر میں ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے۔ “ کہ آیا آل فرعون کو اس قتل کے بارے میں علم ہوا ہے یا نہیں ؟۔۔۔ اور آپ کو خوف صرف اس لئے تھا کہ وہ جانتے تھے کہ آپ اسرائیلیوں میں سے ہیں اور ان حالات میں، ان کے سوا کوئی اور شخص یہ اقدام کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ ابھی وہ اس حال ہی میں تھے کہ (آیت) ” یکایک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شخص جس نے کل آپ کو (اپنے دشمن کے خلاف) مدد کے لئے پکارا آج پھر (ایک اور قبطی کے خلاف) مدد کے لئے پکاررہا ہے۔ “ (آیت) تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے حال پر اس کو زجروتبیخ کرتے ہوئے کہا۔ (آیت) یعنی تم کھلے گمراہ اور واضح طور پر برائی کے ارتکاب کی جرأت کرنے والے ہو۔ (آیت) ” پھر جب اس نے پکڑنے کا ارادہ کیا “ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے (آیت) ” اس آدمی کو جو ان دونوں کا دشمن تھا “ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اور جھگڑا کرنے والے اس اسرائیلی کے دشمن کو جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مدد کے لئے پکارا تھا۔ یعنی قبطی اور اسرائیلی کے درمیان جھگڑا جاری رہا اور اسرائیلی موسیٰ (علیہ السلام) کو مدد کے لئے پکارتا رہا اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حمیت نے آلیا حتٰی کہ انہوں نے اس قبطی کو پکڑنا چاہا (قال) ” کہا “ قبطی نے اپنے قتل پر موسیٰ (علیہ السلام) کو زبر و توبیخ کرتے ہوئے : (آیت) ” اے موسیٰ ! کیا تم مجھے بھی قتل کرنا چاہتے ہو جس طرح تم نے کل ایک شخص کو مار ڈالا تھا، تم تو یہی چاہتے ہو کہ ملک میں ظلم و ستم کرتے پھرو۔ “ کیونکہ زمین میں جابروں اور متکبروں کی سب سے بڑی علامت، ناحق قتل کرنا ہے۔ (آیت) ” اور یہ نہیں چاہتے کہ تم نیکوکاروں میں سے ہوجاؤ۔ “ ورنہ اگر تم اصلاح چاہتے تو کسی ایک کو قتل کرنے کا ارادہ کئے بغیر میرے اور اس کے درمیان حائل ہوجاتے۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) اس کو قتل کرنے کے ارادے سے باز آگئے اور اس کے وعظ اور زجروتوبیخ کی بنا پر رک گئے۔ ان دونوں واقعات پر موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر پھیل گئی۔ یہاں تک کہ فرعون اور اس کے سرداروں نے باہم مشورہ کرکے موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مرد صالح کو مقرر کیا جس نے جلدی سے موسیٰ (علیہ السلام) کو اطلاع دی کہ اہل دربار نے ان کے بارے میں متفقہ طور پر کیا فیصلہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ویب ڈیسک) ” اور ایک شخص شہر کی پرلی طرف سے دوڑتا ہوا آیا۔ “ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) سے خیر خواہی کی بنا پر اور اس خوف سے کہ کہیں موسیٰ (علیہ السلام) کو خبر ہونے سے پہلے ہی نہ پکڑ لیں (آیت) ” اس نے کہا، اے موسیٰ ! بیشک فرعون کے درباری آپ کے بارے میں مشورہ کررہے ہیں “ (آیت) ” تاکہ آپ کو مار ڈالیں، پس آپ نکل جائیں۔ “ یعنی شہر سے فرار ہوجائیں (آیت) ” میں آپ کا انتہائی خیر خواہ انسان ہوں۔ “ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس خیر خواہ انسان کی خیر خواہی پر عمل کیا۔ (آیت) ” پس اس بات سے ڈرتے ہوئے (کہ کہیں ان کو قتل نہ کردیا جائے) اس شہر سے نکل پڑے “ اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی : (آیت) ” میرے رب ! مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔ “ کیونکہ اب وہ اپنے اس فعل سیت وبہ کرچکے ہیں جس کا انہوں نے بغیر کسی قصد و ارادے کے غصے کی حالت میں ارتکاب کیا تھا اب ان کا آپ کو دھمکی دینا ظلم اور زیادتی ہے۔ (آیت) یعنی جب آپ نے مدین جانے کا ارادہ کیا۔ مدین جنوبی فلسطین میں واقع تھا جہاں فرعون کی عملداری نہ تھی۔ (آیت) ” کہنے لگے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا راستہ بتائے۔ “ یعنی معتدل اور مختصر راستہ جو نہایت آسانی اور سہولت سے مدین پہنچاتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سیدھا اور مختصر راستہ دکھایا اور وہ مدین پہنچ گئے۔ (آیت) ” جب مدین کے پانی پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جمع ہیں اور پانی پلا رہے ہیں۔ “ یعنی اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے تھے۔ اہل مدین بہت زیادہ مویشیوں کے مالک تھے (آیت) ” اور انہوں نے پائیں ان لوگوں سے ورے۔ “ یعنی لوگوں سے الگ تھلگ (آیت) ” وہ عورتیں (اپنی بکریوں کو لوگوں کو حوضوں سے) دور ہٹاتے ہوئے “ کیونکہ وہ مردوں کے بخل اور عدم مروت کی بنا پر، ان سے مزاحم ہونے سے عاجز تھیں (قال) موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا (آیت) اس صورتحال میں تمہیں کیا پریشانی ہے۔ (آیت) ” انہوں نے کہا، ہم اس وقت تک پانی نہیں پلاتیں جب تک چرواہے لوٹ نہ جائیں۔ “ یعنی عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ بکریوں کو پانی پلانے کے لئے ہماری باری نہیں آتی جب تک کہ تمام چرواہے اپنی بکریوں کو پانی پلا کر وہاں سے ہٹ نہ جائیں۔ جب جگہ خالی ہوتی ہے تو ہم اپنے مویشیوں کو پانی پلاتی ہیں۔ (آیت) ” اور ہمارا والد ایک بوڑھا آدمی ہے۔ “ جس میں مویشیوں کو پانی پلانے کی طاقت ہے نہ ہم میں اتنی قوت ہے کہ ہم اپنے مویشیوں کو پانی پلاسکیں اور نہ ہمارے گھرانے میں مرد ہی ہیں جو ان چرواہوں سے مزاحم ہوسکیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان دونوں عورتوں پر بہت رحم آیا (آیت) پس موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کوئی اجرت لئے بغیر محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے مقصد سے ان کے مویشیوں کو پانی پلادیا۔ جب آپ نے ان کے مویشیوں کو پانی پلایا تو دوپہر اور سخت دھوپ کا وقت تھا اور اس کی دلیل یہ ہے (آیت) ” پھر ایک سایہ دار جگہ کی طرف ہٹ آئے۔ “ یعنی تھکاوٹ کے بعد آرام لینے کے لئے سائے میں آئے۔ (فقال) اس حالت میں اللہ تعالیٰ سے رزق کی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا : (آیت) یعنی تو جو بھلائی میری طرف بھیجے اور میرے لئے مہیا کرے میں اس کا محتاج ہوں۔ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی اپنی زبان حال کے ذریعے سے دعا تھی اور زبان حال کے ذریعے سے دعا کرنا زبان قال کے ذریعے سے دعا کرنے سے زیادہ بلیغ ہے، وہ اسی حالت میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہے۔ وہ دونوں عورتوں اپنے والد کے پاس گئیں اور ان کو تمام واقعہ کہہ سنایا۔ ان کے والد نے ان میں سے ایک عورت کو موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھیجا وہ آپ کے پاس آئی (آیت) ” شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی۔ “ یہ حیا اس عورت کی اچھی فطرت اور خلق حسن پر دلالت کرتی ہے۔ حیا اخلاق فاضلہ میں شمار ہوتی ہے۔۔۔ خاص طور پر عورتوں میں۔ یہ چیز اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان خواتین کے مویشیوں کو جو پانی پلایا تھا کسی نوکر یا غلام کی حیثیت سے نہیں پلایا تھا کہ جن سے عموماً شرمایا نہیں جاتا بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) تو عزت نفس رکھنے والے شخص تھے اس لئے اس عورت نے آپ کے جس حسن اخلاق کا مشاہدہ کیا وہ اس کی حیا کا موجب تھا۔ (قالت) پس اس عورت نے آکر موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : (آیت) ” بیشک آپ کو میرے والد بلاتے ہیں کہ آپ نے جو ہمارے لئے پانی پلایا تھا اس کی آپ کو اجرت دیں۔ “ یعنی آپ پر کسی قسم کا احسان کرتے ہوئے نہیں بلکہ آپ نے ہم پر احسان کی ابتدا کی ہے ہمارا مقصد تو صرف یہ ہے کہ ہم آپ کے احسان کا بدلہ دیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کی بات مان لی۔ (آیت) ” پس جب موسیٰ ان کے پاس آئے اور ان کے سامنے اپنا واقعہ بیان کیا۔ “ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے ابتدائی اسباب سے لے کر، جو وہاں سے آپ کے فرار کے موجب بنے، یہاں پہنچنے تک، تمام واقعات سنائے دئیے (قال) ” انہوں نے کہا “ موسیٰ (علیہ السلام) کا خوف دور کرتے اور ان کی دل جوئی کرتے ہوئے : (آیت) یعنی آپ کو ڈرنا اور خوف نہیں کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان ظالموں سے نجات دے دی ہے اور آپ ایک ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں ان کا کوئی اختیار نہیں۔ (آیت) یعنی ان کی ایک بیٹی نے کہا : (آیت) یعنی انہیں اپنے پاس اجرت پر رکھ لیں یہ آپ کی بکریوں کو چرائیں گی اور انہیں پانی پلائیں گے (آیت) یعنی موسیٰ (علیہ السلام) تمام ملازموں سے بہتر ہیں کیونکہ یہ طاقتور بھی ہیں اور امین بھی اور بہترین ملازم وہ ہوتا ہے جس میں وہ کام کرنے کی قوت اور قدرت ہو جس کے لئے اسے ملازم رکھا گیا ہے اور اس میں خیانت نہ ہو اور وہ امین ہو۔ یہ دونوں صفات ہر اس شخص میں اہمیت دئیے جانے کے لائق ہیں جس کو کوئی منصب سونپا جائے یا اسے اجرت وغیرہ پر رکھا جائے۔ معاملات میں خلل اس وقت واقع ہوتا ہے جب یہ دونوں اوصاب یا ان میں سے ایک وصف مفقود ہو۔ ان دونوں اوصاف کے اجتماع سے اس کام کی بدرجہ احسن تکیل ہوتی ہے۔ اس عورت نے اپنے باہ کو مشورہ اس لئے دیا تھا کہ اس نے بکریوں کو پانی پلاتے وقت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوت اور نشاط کا مشاہدہ کرلیا تھا جس سے اس نے آپ کی قوت کا اندازہ لگا لیا تھا اور اسی طرح اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کی امانت اور دیانت کو بھی پرکھ لیا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان عورتوں پر اس وقت اور اس حالت میں رحم کھایا تھا جب ان سے کسی فائدے کی امید نہ تھی آپ کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی تھا۔ (قال) یعنی صاحب مدین نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : (آیت) ” میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کو تم سے بیاہ دوں اس شرط پر کہ تم میری خدمت کرو۔ “ یعنی میرے ہاں نوکر ٹھہر جاؤ۔ (آیت) آٹھ سال تک (آیت) ” پس اگر دس سال پورے کردیں تو یہ آپ کی طرف سے ہوگا۔ “ یعنی آپ کی طرف سے عطیہ ہوگا زائد مدت آپ پر واجب نہیں ہے۔ (آیت) ” میں نہیں چاہتا کہ تم پر سختی کروں “ اور میں حتمی طور پر دس سال کی مدت مقرر کردوں اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کو پر مشقت کاموں کے لئے ملازم رکھوں۔ میں نے تو آپ کو نہایت آسان کام کے لئے ملازم رکھا ہے جس میں کوئی مشقت نہیں۔ (آیت) ” تم مجھے انشاء اللہ نیک لوگوں میں پاؤ گے۔ “ صاحب مدین نے آپ کو کام کی سہولت اور حسن معاملہ کے ذریعے سے ترغیب دی۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ مرد صالح کے لئے مناسب یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو حسن اخلاق سے کام لے۔ (قال) موسیٰ (علیہ السلام) نے صاحب مدین کی شرائط اور اس کا مطالبہ قبول کرتے ہوئے فرمایا : (آیت) یعنی وہ شرط جس کا آپ نے ذکر کیا ہے مجھے منظور ہے میرے اور آپ کے درمیان معاہدہ پکا ہے۔ (آیت) ” میں دونوں مدتوں میں سے جو بھی مدت پوری کروں، تو مجھ پر زیادتی نہ ہو۔ “ خواہ میں آٹھ (سال) پورے کروں جن کو پورا کرنا واجب ہے یا عطیہ کے طور پر آٹھ سال سیز ائد کام کروں۔ (آیت) ” اور ہم جو معاہدہ کرتے ہیں اللہ اس کا گواہ ہے۔ “ یعنی حفاظت کرنے والا اور نگہبانی کرنے والا ہے وہ جانتا ہے کہ ہم نے کیا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ مذکورہ شخص، ان دو عورتوں کا والد اور صاحب مدین، وہ شعیب نہیں جو معروف نبی ہیں جیسا کہ بہت سے لوگوں کے ہاں مشہور ہے۔ یہ ایک ایسا قول ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ اس ضمن میں کوئی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شعیب (علیہ السلام) کا شہر بھی مدین ہی تھا اور یہ واقعہ بھی مدین ہی میں پیش آیا۔۔۔ دونوں امور میں تلازم کیونکر واقع ہوگیا ؟ نیز یہ بھی یقینی طور پر معلوم نہیں کہ آیا موسیٰ (علیہ السلام) نے شعیب (علیہ السلام) کا زمانہ پایا ہے یا نہیں ان کا شعیب (علیہ السلام) سے ملاقات کرنا کیونکر معلوم ہوسکتا ہے ؟ اگر وہ شخص، شعیب (علیہ السلام) ہی ہوتے تو اللہ تعالیٰ اس کا زکر ضرور فرماتا اور وہ خواتین بھی اس بات کا ذکر کرتیں۔ نیز شعیب (علیہ السلام) کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک کر ڈالا تھا، ان میں سے صرف وہی لوگ باقی بچے تھے جو ایمان لے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس بات سے اپنی پناہ میں رکھا ہے کہ وہ اپنے نبی کی دو بیٹیوں کو پانی سے محروم کرنے اور ان کے مویشیوں کو پانی سے روکنے پر راضیہ ہوں یہاں تک کہ ایک اجنبی شخص آئے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے ان کے مویشیوں کو پانی لادے۔ خود حضرت شعیب بھی اس پر راضی نہیں ہوسکتے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان کی بکریاں چرائیں اور ان کے پاس خادم بن کر رہیں حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) شعیب (علیہ السلام) سے افضل اور بلند تر درجے پر فائز تھے۔۔۔ البتہ اگر یہ واقعہ موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت سے پہلے کا ہے تب اس میں کوئی منافات نہیں۔ بہر حال رسول اللہ ﷺ سے روایت صحیحہ کے بغیر اس قول پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ شخص مزکور شعیب نبی تھے۔ واللہ اعلم۔ (آیت) ” پس جب موسیٰ (علیہ السلام) نے مدت پوری کردی۔ “ اس میں دونوں احتمال موجود ہیں کہ آپ نے وہ مدت پوری کی ہو جس کا پورا کرنا آپ پر واجب تھا یا اس کے ساتھ وہ زائد مدت بھی پوری کی ہو جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آپ کے ایفائے عہد کے وصف کی بنا پر یہی گمان کیا جاسکتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں اپنے گھر والوں، اپنی والدہ اور اپنے خاندان والوں کے پاس اپنے وطن پہنچنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔۔۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کا خیال تھا کہ اس طویل مدت میں لوگ اس قبطی کے قتل کے واقعہ کو بھول گئے ہوں گے۔ (آیت) ” اپنے گھر والوں کو لے کر چلے۔ “ مصر کا قصد کرکے (انس) یعنی آپ نے دیکھا (آیت) ” طور کی طرف آگ کو، تو وہ اپنے گھر والوں سے کہنے لگے، ٹھہرو۔ مجھے آگ نظر آئی ہے۔ شاید میں وہاں سے کچھ پتہ لاؤں یا آگ کا انگارا لے آؤں تاکہ تم تاپو۔ “ وہ راستے سے بھٹکے ہوئے بھی تھے اور موسم بھی سرد تھا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) وہاں پہنچے تو آواز دئیے گئے کہ (آیت) ” اے موسیٰ ! یقیناً میں ہی اللہ ہوں سارے جہانوں کا پروردگار۔ “ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور ربوبیت کی خبر دی ہے اور اس سے یہ چیز لازم آتی ہے کہ وہ اپنی عبادت کا حکم دے جیسا کہ دوسری آیت کریمہ میں آتا ہے (آیت) (طہ : 02 / 41) ” میری عبادت کر اور میری یاد کے لئے نماز قائم کر۔ “ (آیت) ” اور یہ کہ اپنی لاٹھی ڈال دیں “ تو آپ نے اپنا عصا پھینک دیا۔ (آیت) ” پس جب موسیٰ نے لاٹھی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا۔ “ یعنی آپ نے اس کو دوڑتا ہوا دیکھا اس کی شکل بہت ہولناک تھی (آیت) گویا کہ وہ بہت بڑا نر سانپ ہے۔ (آیت) تو موسیٰ (علیہ السلام) واپس بھاگے اور دل پر خوف کے غلبہ کی وجہ سے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا : (آیت) ” اے موسیٰ ! آگے آؤ، اور ڈرو مت، تم امن پانے والوں میں ہوں۔ “ یہ فقرہ عدم خوف اور امن عطا کرنے میں بلیغ ترین فقرہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (اقبل) سامنے آنے کے حکم اور اس کی تعمیل کا تقاضا کرتا ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان سامنے آتا ہے مگر وہ ابھی تک خوف کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا : (ولا تخف) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دو امور کا حکم دیا۔ سامنے آنا اور دل میں کسی قسم کے خوف کو نہ رکھنا۔ مگر ان کے باوجود یہ احتمال باقی رہ جاتا ہے کہ وہ شخص مامور خوف سے آزاد ہو کہ آئے مگر اسے امر مکر وہ سے حفاظت اور امن کی ضمانت حاصل نہ ہو۔ اس لئے فرمایا : (آیت) ” بیشک آپ امن پانے والوں میں سے ہیں “ تب خوف ہر لحاظ سے زائل ہوجاتا ہے۔ پس موسیٰ (علیہ السلام) ہر خوف اور رعب سے آزاد اور مطمئن ہو کر اور آپ اپنے رب کی خبر پر اعتماد کرتے ہوئے سامنے آئے، ان کے ایمان میں اضافہ اور ان کا یقین مکمل ہوچکا تھا۔ یہ معجزہ تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے آپ کے فرعون کے پاس جانے سے قبل آپ کو مشاہدہ کروایا تاکہ جب آپ فرعون کے پاس جائیں تو یقین کامل کے مقام پر فائز ہوں تو اس صورت میں آپ زیادہ جرأت، زیادہ قوت اور صلابت کے ساتھ فرعون کے پاس جائیں گے۔ پھر اللہ نے ایک اور معجزے کا مشاہدہ کروایا چناچہ فرمایا : (آیت) یعنی اپنا ہاتھ داخل کر (آیت) ” اپنے گریبان میں تو بغیر کسی عیب کے سفید نکل آئے گا۔ “ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر باہر نکال لیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ (آیت) اور اپنے بازوؤں کو بھینچ لیں تاکہ آپ کا ڈر اور خوف زائل ہوجائے (فذنک) ” پس یہ “ یعنی عصا کا سانپ بن جانا اور گریبان سے ہاتھ کا چمکتا ہوا نکلنا (آیت) یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قطعی براہین ہیں۔ (آیت) ” فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف جاؤ کہ وہ نافرمان لوگ ہیں۔ “ ان کے لئے مجرد انذار اور رسول کا ان کو حکم دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان کے لئے ظاہری معجزات بھی ضروری ہیں اگر وہ کوئی فائدہ دیں۔ (قال) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور معذرت کرتے، رب تعالیٰ نے جو آپ پر ذمہ داری ڈالی تھی اس پر اس سے مدد کی درخواست کرتے اور اس راستے میں پیش آنے والے موانع کا ذکر کرتے ہوئے، تاکہ ان کا رب ان تمام مشکلات کو آسان کردے۔۔۔ عرض کیا : (آیت) ” اے میرے رب ! میں نے ان کے ایک آدمی کو قتل کیا ہے۔ “ یعنی (آیت) ” پس مجھے خوف ہے کہ وہ کہیں مجھ کو مار نہ ڈالیں اور ہارون جو میرا بھائی ہے اس کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے تو اس کو میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج۔ “ یعنی اس کو میرے ساتھ میرا معاون اور مددگار بنا کر بھیج (آیت) ” جو میری تصدیق کرے “ کیونکہ ایک دوسرے کی موافقت کرتی ہوئی خبروں کے ساتھ تصدیق، حق کو طاقتور بنادیتی ہے۔ (آیت) ” مجھے خوف ہے کہ وہ لوگ میری تکذیب کریں گے۔ “ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول کرتے ہوئے فرمایا : (آیت) یعنی ہم آپ کے بھائی کے ذریعے سے آپ کی مدد کریں گے اور آپ کو طاقت اور قوت عطا کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قتل کے الزام کے خوف کو بھی زائل کردیا۔ فرمایا : (آیت) ہم آپ کو دلیل اور برہان کے ذریعے سے آپ کی دعوت میں قوت اور آپ کے دشمن کے مقابلے میں ہیبت الہٰیہ عطا کریں گے۔ (آیت) ” پس وہ آپ دونوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے “ اور اس کا سبب ہماری نشانیاں اور وہ حق ہے جس پر یہ نشانیاں دلالت کرتی ہیں۔ نیز اس کا سبب یہ بھی ہے کہ جو کوئی ان نشانیوں کو دیکھتا خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ انہی نشانیوں کے سبب سے آپ کو قوت حاصل ہوگی اور دشمن کے فریب کا تاروپود بکھر جائے گا اور یہ نشانیاں آپ کو، سازو سامان سے لیس بڑے برے لشکرون سے بڑھ کر کام دیں گی۔ (آیت) ” تم اور تمہارے متبعین غالب رہو گے۔ “ یہ وعدہ موسیٰ (علیہ السلام) سے اس وقت کیا گیا تھا جب آپ بالکل تنہا تھے اور فرار رہنے کے بعد اپنے وطن واپس لوٹے تھے۔ حالات و واقعات بدلتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کردیا اور آپ کو ملک اور بندوں پر اختیار عطا کردیا آپ اور آپ کے پیروکار ملک میں غالب آگئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کے پیغام کے ساتھ فرعون کے پاس گئے۔ (آیت) ” پس جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس ہمارے کھلی نشانیاں لے کر آئے۔ “ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اپنی دعوت کے تائید میں واضح دلائل لائے جن میں کوئی کوتاہی تھی نہ کوئی پوشیدہ چیز (قالو) تو فرعون کی قوم نے ظلم، تکبر اور عناد کی بنا پر کہا : (آیت) ” یہ تو جادو ہے جو اس نے بنا کر کھڑا کیا ہے۔ “ جیسا کہ فرعون نے اس وقت کہا تھا جب حق ظاہر ہو کر باطل پر غالب آگیا اور باطل مضمحل ہوگیا، تمام بڑے بڑے سردار جو معاملات کے حقائق کو جانتے تھے آپ کے سامنے سرنگوں ہوگئے، تو فرعون نے کہا تھا : (آیت) (طہ : 02 / 17) ” یہ تمہارا سردار ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ “ یہ ذہن مگر ناپاک شخص جو مکرو فریب اور چالبازی کی انتہا کو پہنچ گیا تھا جس کا قصہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اسے زمین و آسمان کے رب نے نازل کیا ہے۔ مگر اس پر بدبختی غالب تھی۔ (آیت) ” اور یہ ہم نے اپنے اگلے باپ دادا میں تو (کبھی یہ بات) نہیں سنی۔ “ یہ بھی انہوں نے جھوٹ بولا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو واضح دلائل وبراہین کے ساتھ مبعوث فرمایا تھا جیسا کہ فرمایا : (آیت) (غافر : 04 / 43) ” اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف واضح دلائل لے کر آئے مگر وہ جو کچھ لے کر آئے تھے اس کے بارے میں تم شک میں مبتلا رہے پھر جب وہ وفات پاگئے تو تم نے کہا اب اللہ ان کے بعد کوئی رسول مبعوث نہیں کرے گا۔ اسی طرح اللہ ہر ایسے شخص کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے جو حد سے تجاوز کرنے والا اور شکی ہوتا ہے۔ “ (آیت) جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ جو چیز موسیٰ (علیہ السلام) لے کر آئے ہیں وہ جادو اگر گمراہی ہے اور ان کا موقف سراسر ہدایت پر مبنی ہے۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : (آیت) ” میرا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور جس لئے آخرت کا اچھا انجام ہوگا۔ “ جب تمہارے ساتھ بحث کرنے اور تمہارے سامنے واضح دلائل بیان کرنے کا یہ کوئی فائدہ نہیں، تم نیگ مراہی ہی میں سرگرداں رہنے اور اپنے کفر کی تائید میں جھگڑنے کا تہیہ کررکھا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ ہدایت یافتہ کون ہے اور ہدایت سے محرومی کس کے حصے میں آئی ہے، نیز کس کا انجام اچھا ہے ہمارا یا تمہارا ؟ (آیت) ” بیشک ظالم نجات نہیں پائیں گے۔ “ اچھی عاقبت اور فوز و فلاح سے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے متبعین سرفراز ہوئے اور ان منکرین حق کے نصیب میں برا انجام، خسارہ اور ہلاکت لکھ دئیے گئے۔ (آیت) فرعون نے اپنے رب کے بارے میں جسارت اور اپنی قوم کے احمق اور کمزور عقل لوگوں کے سامنے خوش نما باتیں کرتے ہوئے کہا : (آیت) ” اے اہل دربار ! میں تمہارا اپنے سوا کسی کو معبود نہیں جانتا “ یعنی میں اکیلا تمہارا الہٰ اور معبود ہوں اگر میرے سوا کوئی اور الہٰ ہوتا تو میرے علم میں ضرور ہوتا۔ ذرا فرعون کی یہ کامل احتیاط ملاحظہ کیجئے، اس نے یہ نہیں کہا : (آیت) ” میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ “ بلکہ یہ کہا ” میں تمہارا اپنیس وا کوئی معبود نہیں جانتا۔ “ کیونکہ وہ ان کے نزدیک ایک عالم فاضل شخص تھا وہ بھی کوئی بات کرتا تھا وہ ان کے نزدیک حق ہوتی تھی اور وہ جو بھی کوئی حکم دیتا تھا اس کی اطاعت کرتے تھے۔ پس جب اس نے یہ بات کہی جس میں یہ احتمال تھا کہ فرعون کے سوا کوئی اور بھی الہٰ ہے تو اس نفی کو متحقق کرنے کے ارادے سے ہامان سے کہا : (آیت) ” اے ہامان ! تو میرے لئے مٹی پر آگ جلا۔ “ تاکہ وہ پکی اینٹیں تیار کرے۔ (آیت) ” پھر میرے لئے ایک محل بنوا دو ۔ “ یعنی ایک بلند عمارت (آیت) ” تاکہ میں موسیٰ کے معبود کی طرف جھانک لوں اور میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔ “ مگر اس میں اس گمان کو سچ کر دکھاؤں گا اور تمہارے سامنے موسیٰ (علیہ السلام) کا جھوٹ عیاں کروں گا۔ ملاحظہ کیجئے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ کتنی بڑی جسارت ہے۔ کسی آدمی نے اتنی بڑی جسارت نہیں کی۔ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی، خود اللہ ہونے کا دعویٰ کیا، اس نے اس بات کی بھی نفی کی کہ اسے معبود حق کے بارے میں علم ہے اور اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معبود تک پہ نچنے کے لئے اسباب مہیا کرنے کا حکم دیا۔ یہ سب ابہام پیدا کرنے کی کوشش ہے، مگر حیرت ہے ان درباریوں پر جو اپنے آپ کو مملکت کے ستون اور سلطنت کے معاملات میں بڑا مدبر سمجھتے تھے۔ فرعون کیسے ان کی عقلوں کے ساتھ کھیلتا رہا اور کیسے ان کو بیوقوف بناتا رہا۔ اس کا سبب ان کا فسق تھا جو ان کا وصف راسخ بن گیا تھا۔ ان کا دین فاسد ہوگیا پھر اس کے نتیجے میں ان کی عقل بھی خرابی کا شکار ہوگئی۔ اے اللہ ! ہم تجھ سے ایمان پر ثابت قدمی اور استقامت کا سوال کرتے ہیں ہمیں ہدایت سے سرفراز کرنے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر۔ تو ہمیں اپنی بےپایاں رحمت سے نواز بلا شبہ تو بہت زیادہ نواز کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” اور فرعون نے اور اس کے لشکر نے ناحق طور پر ملک میں تکبر کیا۔ “ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ متکبرانہ رویہ رکھا اور ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور ان کی دعوت کو تکبر کے ساتھ ٹھکرادیا۔ انہوں نے ان آیات الہٰی کی تکذیب کی اور اس زعم باطل میں مبتلا رہے کہ ان کا مسلک اعلیٰ و افضل ہے۔ (آیت) ” اور وہ خیال کرتے تھے کہ وہ ہماری طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ “ اس لئے انہیں ایسا کرنے کی جرأت ہوئی ورنہ اگر انہیں علم ہوتا اور انہیں اس بات کا یقین ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جائیں گے تو وہ کبھی بھی ایسا کام نہ کرتے جو انہوں نے کیا۔ (آیت) جب وہ اپنے عناد اور سرکشی پر جمے رہے تو ہم نے فرعون اور اس کے لشکروں کو پکڑلیا (آیت) ” پھر ہم نے انہیں دریا میں ڈال دیا، پس دیکھ لو کہ ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔ “ ان کا انجام گھاٹے والا اور بدترین انجام تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیاوی سزا کے ساتھ ساتھ اخروی عذاب میں بھی مبتلا کیا۔ (آیت) ” نیز ہم نے انہیں جہنم کی طرف دعوت دینے والے سرغنے بنادیا “ یعنی ہم نے فرعون اور اس کے سرداروں کو ایسے راہنما بنایا جن کی پیروی کا انجام جہنم کی رسوائی اور بدبختی ہے۔ (آیت) اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے ان کی مدد نہیں کی جاسکے گی، وہ کمزور ترین لوگ ہوں گے، اپنے آپ سے عذاب کو دور نہ کرسکیں گے اور اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی والی اور مددگار نہ ہوگا۔ (آیت) ” اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگادی “ یعنی اس سزا اور رسوائی کے علاوہ، دنیا میں ہم نے ان کے پیچھے لعنت لگادی ہے۔ وہ مخلوق کے ہاں نہایت قبیح اوصاف کے ساتھ معروف، مغضوب اور مذموم ہیں اور یہ ایسا معاملہ ہے جس کا روزمرہ مشاہدہ ہوتا ہے۔ چناچہ وہ اس دنیا میں ائمہ ملعونین اور ان کے پیشواؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ (آیت) ” اور وہ قیامت کے دن بدحالوں میں سے ہوں گے۔ “ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوں گے، ان کے افعال نہایت گندے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض، اس کی مخلوق کے ہاں اور خود اپنی نظر میں ناپسندیدہ ہیں۔ (آیت) ” اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی۔ “ اس سے مراد تو رات ہے (آیت) ” پہلے زمانے کے لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد۔ “ وہ لوگ جن کا خاتمہ تمام لوگوں کو یعنی فرعون اور اس کی افواج کو ہلاک کرکے کیا گیا۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نزول تورات کے بعد قوموں کی ہلاکت عامہ کی سزا منقطع ہوگئی اور کفار کے خلاف جہاد بالسیف مشروع ہوا۔ (آیت) ” لوگوں کے لئے بصیرت افروز دلائل “ اس سے مراد کتاب اللہ ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمائی جس میں لوگوں کے لئے بصیرت ہے، یعنی اس میں ایسے اصول بیان کئے گئے ہیں جن کے ذریعے سے وہ دیکھ سکتے ہیں کہ کیا چیز ان کو فائدہ دیتی ہے اور کیا چیز ان کو نقصان دیتی ہے۔ پس اس سے نافرمان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوجاتی ہے اور مومن اس سے فائدہ اٹھاتا ہے تب یہ کتاب مومن کے حق میں رحمت اور اس کے لئے راہ راست کی طرف راہنمائی ہے۔ بنا بریں فرمایا : (آیت) ” اور ہدایت اور رحمت بنا کر، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں “ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو ان اخبار غیب سے آگاہ فرمایا تو پھر بندوں کو متنبہ کیا کہ یہ خبریں محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور رسول ﷺ کے پاس وحی الہٰی کے سوا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے وہ یہ خبریں حاصل کرسکیں۔ بنا بریں فرمایا : (آیت) ” اور آپ (اس وقت) مغرب کی طرف نہیں تھے۔ “ یعنی کوہ طور کے مغربی گوشے میں جب ہم نے موسیٰ کو حکم احکام کی وحی پہنچائی تھی (آیت) ” اور نہ آپ دیکھنے والوں میں سے تھے۔ “ یعنی آپ ان تمام واقعات کا مشاہدہ نہیں کررہے تھے کہ یہ کہا جائے کہ اس طریقے سے آپ کو اس قصے کی خبر ہوئی ہے۔ (آیت) ” لیکن ہم نے (موسیٰ کے بعد) کئی امتوں کو پیدا کیا پھر ان پر مدت طویل گزرگئی۔ “ اس لئے علم ناپید ہوگیا اور آیات الہٰی کو فراموش کردیا گیا۔ ہم نے آپ کو ایسے وقت میں مبعوث کیا جب آپ کی سخت ضرورت، اور اس علم کی شدید حاجت تھی جو ہم نے آپ کو عطا کیا اور آپ کی طرف وحی کیا (آیت) یعنی آپ مقیم نہ تھے (آیت) ” اہل مدین میں کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے۔ “ یعنی آپ ان کو تعلیم دیتے تھے نہ ان سے تعلیم لیتے تھے، حتیٰ کہ (گمان گزرتا کہ) آپ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اہل مدین کے بارے میں جو خبر دی ہے اسی بنا پر دی ہے۔ (آیت) ” لیکن ہم ہی رسول بھیجنے والے رہے ہیں۔ “ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں یہ خبر جو آپ ﷺ لے کر آئے ہیں وہ آپ کی رسالت کے آثار اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے اور ہماری طرف سے وحی بھیجے جانے کے بغیر اس کا جاننے کا آپ کے پاس کوئی اور ذریعہ نہیں۔ (آیت) ” اور آپ طور کی جانب بھی نہیں تھے جب کہ ہم نے آواز دی۔ “ موسیٰ (علیہ السلام) کو اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس ظالم قوم کے پاس جائیں، انہیں ہمارا پیغام پہنچائیں، انہیں ہماری نشانیاں اور معجزات دکھائیں جو ہم آپ کے سامنے بیان کرچکے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ وہ تمام واقعات جو ان مقامات پر موسیٰ (علیہ السلام) کو پیش آئے آپ ﷺ نے ان کو بغیر کسی کمی بیشی کے اسی طرح بیان کیا ہے جس طرح وہ حقیقت میں واقع ہوئے تھے اور یہ چیز دو امور میں سے کسی ایک امر سے خالی نہیں : یا تو آپ وہاں موجود تھے اور آپ نے ان کا مشاہدہ کیا تھا یا آپ نے ان مقامات پر جاکر ان واقعات کو وہاں کے رہنے والوں سے معلوم کیا تب یہ چیز اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں کیونکہ جن امور کے بارے میں ان کے مشاہدے کے ذریعے سے اور ان کا علم حاصل کرکے خبر دی جائے وہ تمام لوگوں میں مشترک ہوتے ہیں، وہ صرف انبیاء کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتے۔۔۔ مگر یہ چیز پورے یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہوا اور اس حقیقت کو آپ کے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں۔ پس امر ثانی متعین ہوگیا کہ یہ تمام خبریں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے سے آپ ﷺ تک پہنچی ہیں۔ لہٰذا قطعی دلیل سے آپ ﷺ کی رسالت ثابت ہوگئی اور یہ بات بھی پایہ تحقیق کو پہنچ گئی کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت آپ ﷺ پر اور اس کے بندوں پر سایہ فگن ہے۔ بنا بریں فرمایا : (آیت) ” لیکن یہ آپ کے رب کی رحمت ہے تاکہ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا “ یعنی قریش اور عربوں کے پاس کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے پہلے زمانہ طویل سے رسالت ان کے ہاں معروف نہ تھی۔ (آیت) یعنی شاید کہ وہ خیر اور شر کے فرق میں غور کریں، خیر کو لائحہ عمل بنائیں اور شرکو ترک کردیں۔ جب آپ ﷺ اس بلند مقام پر فائز ہیں تو ان پر فرض ہے کہ وہ آپ پر ایمان لانے اور اس نعمت کا شکریہ ادا کرنے میں جلدی کریں جس کی قدروقیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے نہ اس کا شکر ادا کیا جاسکتا ہے۔ اہل عرب کے لئے آپ کا انداز و تنذیر اس امر کی نفی نہیں کرتا کہ آپ کو دوسری قوموں کے لئے بھی مبعوث کیا گیا ہے۔ عربوں کے لئے انذارو تنذیر کی وجہ یہ ہے کہ آپ عرب تھے، آپ پر نازل کیا گیا قرآن عربی میں تھا اور آپ کی دعوت کے اولین مخاطب عرب تھے۔ اس لئے اصولی طور پر آپ کی دعوت عربوں کے لئے تھی اور تبعاً دیگر قوموں کے لئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) (یونس : 01 / 2) ” کہہ دیجئے اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ “ (آیت) ” اور اگر ایسا نہ ہو کہ ان کے (اعمال) کے سبب جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں ان پر کوئی مصیبت نازل ہو۔ “ یعنی ان کے ارتکاب کفر و معاصی کی پاداش میں (آیت) ” تو یہ کہنے لگیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرنے اور ایمان لانے والوں میں سے ہوتے۔ “ یعنی اے محمد ! ﷺ ہم نے ان کی حجت کو ختم کرنے اور ان کی بات کو رد کرنے کے لئے آپ کو مبعوث کیا ہے۔ (آیت) ” پس جب ان کے پاس حق آگیا۔ “ جس میں کوئی شک نہیں (آیت) ” ہماری طرف سے “ اس سے مراد قرآن ہے جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا۔ (قالو) تو اس قرآن کی تکذیب کرتے اور اس پر لایعنی اعتراضات کرتے ہوئے انہوں نے کہا : (آیت) ” انہیں وہ کیوں نہیں دیا گیا جو موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا۔ “ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) پر تمام کتاب اکٹھی نازل کی گئی اور رہی وہ کتاب جو ٹکڑوں کی صورت میں نازل ہوئی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔ ان کے اس قول میں کون سی دلیل ہے ؟ اور یہ کونسا شبہ ہے کہ اگر کتاب ٹکڑوں میں نازل ہوئی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے ؟ بلکہ یہ تو اس قرآن کا کمال ہے اور جس ہستی پر یہ قرآن نازل کیا گیا ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اعتنائے خاص ہے کہ اس نے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اپنے رسول کو ثابت قدمی اور استقامت عطا کرے اور مومنین کے ایمان میں اضافہ ہو۔ فرمایا : (آیت) (الفرقان 52 / 33) ” اور وہ جب کبھی کوئی مثال لے کر آپ کے پاس آئے اس کا درست اور بروقت جواب ہم نے آپ کو دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کو کھل کر بیان کردیا۔ “ نیز قرآن کو موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب پر قیاس کرنا ایک ایسا قیاس ہے جسے یہ خود ہی توڑ رہے ہیں۔ یہ قرآن کریم کو ایک ایسی کتاب پر کیونکر قیاس کرتے ہیں جس کا یہ انکار کرتے ہیں اور اس پر ایمان نہیں لاتے ؟ بنا بریں فرمایا : (آیت) ” کیا جو پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا تھا انہوں نے اس کا کفر نہیں کیا، کہنے لگے کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ایک دوسرے کے موافق۔ “ یعنی قرآن مجید اور تورات مقدس، جو ان دونوں کی جادوگری اور لوگوں کو گمراہ کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ (آیت) ” انہوں نے کہا، ہم تو ہر ایک سے انکار کرنے والے ہیں۔ “ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ لوگ بلا دلیل حق کا ابطال اور ایسی چیز کے ذریعے سے حق کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں جو حق کی مخالفت نہیں کرسکتی۔ ان کے اقوال میں تناقض اور اختلاف ہے اور ہر کافر کا یہی رویہ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمادی کہ انہوں نے دونوں کتابوں اور دونوں رسولوں کا انکار کیا ہے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان کا ان دونوں کتابوں کا انکار کرنا طلب حق اور کسی اپنے حکم کی اتباع کی بنا پر تھا جو ان دونوں کتابوں سے اور بہت رتھا یا محض خواہش نفس پر مبنی تھا ؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” کہہ دیجئے، اللہ کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو۔ “ یعنی تو رات اور قرآن سے بڑھ کر ہدایت کی حامل (آیت) ” میں اس کی اتباع کروں گا اگر تم سچے ہو “ اور وہ ایسی کتاب لانے پر قادر نہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ قرآن اور تورات جیسی کتاب تصنیف کرلائے۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے، تب سے علم و ہدایت، بیان و تبیین اور مخلوق کے لئے رحمت کے اعتبار سے ان دو کتابوں جیسی کوئی اور کتاب وجود میں نہیں آئی۔ یہ داعی کا کمال انصاف ہے کہ وہ لوگوں سے یہ کہہ کہ اس کا مقصد حق اور رشد و ہدایت ہے اور وہ ایسی کتاب لے کر آیا ہے جو حق پر مشتمل ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب کے موافق ہے، اس لئے ان دونون کے سامنے سرنگوں ہونا ہم پر واجب ہے کیونکہ دونوں کتابیں حق اور ہدایت پر مشتمل ہیں اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ حق اور ہدایت پر مشتمل ہو تو میں اس کی پیروی کروں گا۔ ورنہ میں ہدایت اور حق کو چھوڑ کر کسی ایسی کتاب کی اتباع نہیں کرسکتا جو ہدایت اور حق پر مشتمل نہ ہو۔ (آیت) ” پھر اگر یہ تمہاری بات قبول نہ کریں۔ “ یعنی اگر وہ ایسی کتاب نہ لاسکیں جو ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت پر مشتمل پر ہو۔ (آیت) یعنی پھر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا آپ کی اتباع کو ترک کرنا اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے حق اور ہدایت کو پہچان کر اس کی طرف رجوع کیا ہے بلکہ یہ تو مجرو خواہشات نفس کی پیروی ہے (آیت) ” اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو ؟ “ پس یہ شخص لوگوں میں گمراہ ترین شخص ہے کیونکہ اس کے سامنے ہدایت پیش کی گئی اور اسے صراط مستقیم دکھایا گیا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے، مگر اس نے اس راستے کی طرف التفات کیا نہ اس ہدایت کو قبول کیا۔ اس کے برعکس اس کی خواہش نفس نے اس کو اس راستے پر چلنے کی دعوت دی جو ہلاکت اور بدبختی کی گھاٹیوں کی طرف جاتا ہے اور وہ راہ ہدایت کو چھوڑ کر اس راستے پر گامزن ہوگیا۔ جس کا یہ وصفہو، کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور گمراہ ہوسکتا ہے ؟ اس کا ظلم وتعدی اور حق کے ساتھ اس کی عدم محبت اس بات کے موجب ہیں کہ وہ اپنی گمراہی پر جما رہے اور اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے محروم کردے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” بیشک اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “ یعنی وہ لوگ کہ ظلم وعناد جن کا وصف بن گیا، ان کے پاس ہدایت آئی مگر انہوں نے اسے رد کردیا اور خواہشات نفس کے پیچھے لگ گئے اور خود اپنے ہاتھوں سے ہدایت کے دروازے کو بند اور ہدایت کو راہ کو مسدود کرکے گمراہی کے دروازوں اور اس کی راہوں کو اپنے لئے کھول لیا۔ پس وہ اپنی گمراہی اور ظلم میں سرگرداں، اپنی ہلاکت اور بدبختی میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر وہ شخص جو رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو قبول نہیں کرتا اور اس قول کو اختیار کرتا ہے جو قول رسول اللہ ﷺ کے خلاف ہو، وہ ہدایت کے راستے پر گامزن نہیں بلکہ وہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ (آیت) یعنی ہم نے اپنی بات کو لگاتار طریقے سے ان تک پہنچایا اور ان پر اپنی رحمت اور لطف و کرم کی بنا پر اسے تھوڑ اتھوڑا کرکے نازل فرمایا (آیت) ” تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ “ جب ان پر آیات الہٰی بتکرار نازل ہوں گی اور بوقت ضرور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح دلائل نازل ہوں گے۔ پس کتاب اللہ کا ٹکڑوں میں نازل ہونا، ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا لطف و کرم ہے۔ تب وہ اسی بات پر کیوں اعتراض کرتے ہیں جس میں ان کی بھلائی ہے ؟ قصہء موسیٰ (علیہ السلام) سے بعض فوائد اور عبرتوں کا استنباط آیات الہٰی، اللہ تعالیٰ کے نشانات عبرت اور گزشتہ قوموں میں اس کے ایام سے صرف اہل ایمان ہی فائدہ اٹھاتے اور روشی حاصل کرتے ہیں۔ بندہ مومن اپنے ایمان کے مطابق عبرت حاصل کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انہی کی خاطر گزشتہ قوموں کے قصے بیان کرتا ہے۔ رہے دیگر لوگ تو اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں، ان کے نصیب میں روشنی ہے نہ ہدایت۔ اللہ تبارک و تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے لئے اسباب مہیا کردیتا ہے اور اسے یک لخت منصۂ شہود پر نہیں لاتا، بلکہ بتدریج آہستہ آہستہ وجود میں لاتا ہے۔ ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مستضعفین خواہ کمزوری اور محکومی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوں ان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ سستی اور مایوسی کا شکار ہو کر اپنے حق کے حصول اور بلند مقاصد کے لئے جدوجہد کو چھوڑدیں خاص طور پر جبکہ وہ مظلوم ہوں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی کمزور اور محکوم قوم کو فرعون اور اس کے سرداروں کی غلامی سے نجات دی، پھر انہیں زمین میں اقتدار بخشا اور انہیں اپنے شہروں کا مالک بنایا۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جب تک قوم مقہورومحکوم رہتی ہے اور اپنے حقوق حاصل کرتی ہے نہ ان کا مطالبہ کرتی ہے اس کے دین و دنیا کا معاملہ درست نہیں ہوتا اور نہ وہ دین میں امامت سے سرفراز ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے اس بشارت کے ذریعے سے ان کی مصیبت کو آسان کردیا کہ وہ ان کو ان کا بیٹا واپس لوٹائے گا اور اسے رسول بنائے گا۔ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے کے لئے بعض سختیاں مقدر کردیتا ہے۔ تاکہ مآل کار اسے ان شدائد سے بڑھ کر سرور حاصل ہو یا ان سے بڑا کوئی شردور ہو، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو شدید حزن و غم میں مبتلا کیا پھر یہی حزن و غم ان کے لئے اپنے بیٹے تک پہنچنے کا وسیلہ بنا جس سے ان کا دل مطمئن اور آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں اور ان کی فرحت و مسرت میں اضافہ ہوا۔ ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مخلوق کا طبعی خوف ایمان کے منافی ہے نہ ایمان کو زائل کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو خوف کے مقام پر خوف لاحق ہوا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے اور سب سے بڑی چیز جس سے ایمان میں اضافہ اور یقین کی تکمیل ہوتی ہے، مصائب کے وقت صبر اور شدائد کے وقت ثابت قدمی اور استقامت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) (القصص : 83 / 01) ” اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بدھاتے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے “ یعنی تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے ایمان میں اضافہ ہو اور ان کا دل مطمئن ہو۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت اور بندے کے معاملات میں اس کی طرف سے سب سے بڑی اعانت یہ ہے کہ وہ اس کو اپنی طرف سے ثابت قدمی اور استقامت سے سرفراز کرے، خوف اور اضطراب کے وقت اس کے دل کو قوت عطا کرے کیونکہ اسی صورت میں بندہ مومن صحیح قول و فعل پر قادر ہوسکتا ہے اس کے برعکس جو شخص پریشانی، خوف اور اضطراب کا شکار ہے اس کے افکار ضائع اور اس کی عقل زائل ہوجاتی ہے اور وہ اس حال میں اپنے آپ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ اگر بندے کو اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر اور اس کے وعدے کا نفاذ لازمی امر ہے، تب بھی وہ اسباب کو ترک نہ کرے اور یہ چیز، اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی خبر پر ایمان کے منافی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ سے وعدہ فرمایا تھا کہ انہیں ان کا بیٹا لوٹادے گا۔ بایں ہمہ وہ اپنے بیٹے کو واپس لینے کے لئے کوشش کرتی رہیں انہوں نے اپنی بیٹی کو بھیجا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پیچھے پیچھے جائے اور دیکھے کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ اس قصہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ عورت کا اپنی ضروریات کے لئے گھر سے باہر نکلنا اور مردوں سے ہم کلام ہونا جائز ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن اور صاحب مدین کی بیٹیوں کے ساتھ پیش آیا۔ اس قصہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کفالت اور رضاعت پر اجرت لینا جائز ہے اور جو اس طرح کرتا ہے، اس کے لئے دلیل ہے۔ ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے کمزور بندے کو، جسے وہ اپنے اکرام و تکریم سے سرفراز کرنا چاہتا ہے، اسے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور واضح دلائل کا مشاہدہ کراتا ہے جن سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی والدہ کے پاس لوٹادیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ اس قصہ سے ثابت ہوا کہ ایسے کافر کو، جو کسی معاہدے اور عرف کی بنا پر ذمی ہو، قتل کرنا جائز نہیں کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کافر قبطی کے قتل کو گناہ شمار کیا اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوئی لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے، وہ ان جابروں میں شمار ہوتا ہے جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ نیز جو کوئی لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے اور بزعم خود زمین میں اصلاح کرتا ہے اور اہل معاصٰ کو ہیبت زدہ کرتا ہے، وہ جھوٹا اور فساد برپا کرنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قبطی کا قول نقل فرمایا : (آیت) (القصص 82 / 91) ” تو زمین میں صاحب جبر و استبداد بن کر رہنا چاہتا ہے، تو اصلاح کرنا نہیں چاہتا۔ “ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ قول انکار کے لئے نہیں بلکہ تحقیق و تقریر کے لئے نقل فرمایا ہے۔ کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کو اس کے بارے میں خبر دینا کہ اس کے خلاف کوئی منصوبہ بن رہا ہے، تاکہ وہ اس کے شر سے بچ سکے، چغلی اور غیبت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ بلکہ بسا اوقات ایسا کرنا واجب ہے جیسا کہ اس (درباری) شخص نے خیر خواہی کے طور پر اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بچانے کے لئے دربار فرعون کے منصوبے کے بارے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آگاہ کیا تھا۔ جب کسی جگہ قیام کرنے میں جان و مال کا خطرہ ہو تو انسان کو اپنے آپ کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہیے اور نہ اپنے آپ کو ہلاکت کے حوالے کرنا چاہیے بلکہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے وہاں سے نکل جانا چاہیے، جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے فرار ہوئے۔ جب انسان کو دو برائیوں کا سامنا ہوا اور ان میں سے کسی ایک کو اختیار کئے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو وہ خفیف تر برائی کو اختیار کرے جس میں قدرے زیادہ سلامتی ہو۔ جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کا معاملہ دو امور کے مابین تھا : ۔ 1 مصر میں رہتے، مگر اس صورت میں یقیناً قتل کردئیے جاتے۔ ۔ 2 یا دور کسی شہر میں چلے جاتے جس کا راستہ بھی انہیں معلوم نہ تھا اور ان کے رب کے سوا کوئی راہنمائی کرنے والا بھی ان کے ساتھ نہ تھا، مگر اس صورتحال میں، مصر میں رہنے کی نسبت، مصر چھوڑ جانے میں سلامتی کی زیادہ توقع تھی۔ علم میں شغف رکھنے والے کو جب کبھی علمی بحث کی ضرورت پیش آئے، دو اقوال میں سے کوئی قول اس کے نزدیک راجح نہ ہو تو وہ اپنے رب سے ہدایت کی استدعا کرے کہ وہ اس کی راہ صواب کی طرف راہنمائی کرے، اپنے دل میں حق کو مقصود مطلوب بنائے رکھے اور حق ہی کو تلاش کرے اور جس کا یہ حال ہو اللہ تعلایٰ اس کو کبھی خائب و خاسر نہیں کرتا۔ جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے نکل کر مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے : (آیت) (القصص : 82 / 22) ” امید ہے میرا رب سیدھے راستے کی طرف میری رہنمائی کرے گا۔ “ ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مخلوق پر رحم کرنا اور جان پہچان رکھنے والے یا اجنبی لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا انبیائے کرام کا اخلاق ہے، پیا سے موشیویں کو پانی پلانا اور کسی عاجز اور لاچار کی مدد کرنا احسان کے زمرے میں آتا ہے۔ اپنے حال کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا مستحب ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کو بندے کے احوال کا علم ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کو بندے کی عاجزی اور اس کی تذلل و مسکنت کا اظہار پسند ہے، جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا : (آیت) (القصص : 82 / 42) ” اے میرے رب ! جو بھلائی بھی تو مجھ پر نازل کرے، میں اس کا ضرورت مند ہوں۔ “ شرم و حیاء، خاص طور پر باعزت لوگوں میں، ایک قابل مدح صفت ہے۔ حسن سلوک کا اچھا بدلہ دینا گزشتہ قوموں کا بھی وتیرہ رہا ہے۔ بندہ جب کوئی کام اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کرتا ہے اور بغیر کسی قسد و ارادے کے اس کو اس کام کا اچھا بدلہ عطا ہوجاتا ہے تو وہ اس پر قابل ملامت نہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے، صاحب مدین سے، اپنی نیکی کا بدلہ قبول کیا جو انہوں نے کسی عوض کے لئے کی تھی نہ وہ اپنے دل میں کسی عوض کے منتظر تھے۔ اس قصہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ملازم رکھنا مشروع ہے نیز بکریاں وغیرہ چرانے یا کسی ایسے ہی کام کی اجرت ادا کرنا جائز ہے جسے کرنے پر وہ خود قادر نہ ہو، البتہ اس کا دارومدار عرف عامر پر ہے۔ کسی کام کی اجرت میں کوئی منفعت حاصل کرنا جائز ہے خواہ ییہ منفعت نکاح کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔ کسی ایسے شخص سے اپنی بیٹی کے رشتے کی درخواست کرنا جسے وہ پسند کرتا ہو تو یہ جائز ہے اس پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ بہترین نوکر اور مزدور وہ ہے جو طاقتور اور امانت دار ہو۔ اپنے خادم اور نوکر سے حسن سلوک سے پیش آنا اور اس پر مشقت کام نہ لینا مکارم اخلاق میں شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ فرمایا : (آیت) (القصص : 82 / 72) ” میں تمہیں مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا اور تم مجھے انشاء اللہ نیک آدمی پاؤ گے۔ “ آیت کریمہ : (آیت) (القصص : 82 / 82) سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر کسی گواہی کے اجرت کا معاہدہ کرنا جائز ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر واضح نشانات اور ظاہری معجزات جاری کئے، مثلاً عصا کا سانپ بن جانا، ہاتھ کا بغیر کسی عیب کے سفید ہوجانا اور اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو فرعون کی اذیتوں اور سمندر میں غرق ہونے سے بچانا۔ انسان کے لئے بدترین سزا یہ ہے کہ وہ برائی میں لوگوں کا امام ہو اور یہ امامت آیات الہٰی اور روشن دلائل کی مخالفت کے مطابق ہوتی ہے جس طرح بہترین نعمت جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو سرفراز فرماتا ہے، یہ ہے کہ وہ اسے نیکی کے راستے میں امامت کے مرتبے پر فائز کرے اور اسے لوگوں کے لئے ہادی اور مہدی بنادے۔ ان آیات کریمہ میں رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر واضح دلیل ہے کیونکہ حضرت رسول مصطفیٰ ﷺ نے اس قصہ کو تفصیل کے ساتھ اصل واقعات کے عین مطابق بیان کیا جس کے ذریعے سے آپ نے رسولوں کی تصدیق اور حق مبین کی تائید کی، حالانکہ آپ ان واقعات کے وقت حاضر تھے نہ آپ مقامات میں سے کسی مقام کا مشاہدہ کیا تھا، آپ نے ان امور کے بارے میں کچھ پڑھا تھا نہ کسی سے درس لیا تھا اور نہ کسی اہل علم کی مجلس میں بیٹھے تھے یہ تو صرف رحمن و رحیم کی طرف سے رسالت اور وحی ہے جسے بےپایاں احسان کے مالک، اللہ کریم نے نازل کیا تاکہ وہ اس کے ذریعے سے جاہل اور انبیاء ورسل سے غافل قوم کو اس کے برے انجام سے ڈرائے۔ اللہ تعالیٰ کے درود وسلام ہوں اس ہستی پر جس کی مجرو خبر ہی آگاہی کرتی ہے کہ بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہے اور جس کے مجرد اور امرونواہی عقلوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ یہ احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، کیونکہ نہ ہوں جبکہ اولین و آکرین کی خبر، اس کی لائی ہوئی خبر اور وحی کی صحت و صداقت کی تائید و تصدیق کرتی ہے۔ وہ شریعت جو رسول اللہ ﷺ اللہ رب العلامین سے لے کر مبعوث ہوئے ہیں، وہ اخلاق فاضلہ جو آپ کی جبلت میں رکھ دئیے گئے، صرف اسی ہستی کے لائق اور اسی کے لئے مناسب ہیں جو اخلاق کی بلدن ترین درجہ پر فائز ہو جس کے دین اور امت کو فتح مبین سے سرفراز کیا گیا ہو۔ یہاں تک کہ آپ کا دین اس مقام تک پہنچ گیا جہاں تک سورج طلوع ہوتا اور غروب ہوتا ہے۔ آپ کی امت نے بڑے بڑے شہروں کو شمشیر وسنان کے ذریعے سے اور لوگوں کے دلوں کو علم و ایمان کے زریعے سے فتح کرلیا۔ تمام معاند قومیں اور شاہان کفار اسلام کے خلاف متحد رہے اور اس کی روشنی کو بجھانے اور روئے زمین سے اس کو نیست و نابود کرنے کے لئے سازشین کرتے رہے مگر دین ظاہر اور غالب ہو کر رہا، دین بڑھتا ہی رہا اس کے دلائل وبراہین ظاہر ہوتے رہے۔ ہر وق دین کی ایسی نشانیاں ظاہر ہوتی رہی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے عبرت، اہل علم کے لئے ہدایت اور فراست مندوں کے لئے روشنی اور بصیرت ہیں۔ والحمد اللہ وحدہ
Top