بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 1
طٰسٓمّٓ
طٰسٓمّٓ : طا۔ سین۔ میم
طسم
خلاصہ تفسیر
طسم (اس کے معنی اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (مضامین جو آپ پر وحی کئے جاتے ہیں) کتاب واضح (یعنی قرآن) کی آیتیں ہیں (جن میں اس مقام پر) ہم آپ کو موسیٰ ؑ اور فرعون کا کچھ قصہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر (یعنی نازل کر کے) سناتے ہیں ان لوگوں کے (نفع کے) لئے جو کہ ایمان رکھتے ہیں (کیونکہ مقاصد قصص کے یعنی عبرت اور ان سے نبوت پر استدلال وغیرہ یہ مومنین ہی کے ساتھ خاص ہیں خواہ اس وقت مومن ہوں یا ایمان کا ارادہ رکھتے ہوں اور اجمال تو اس قصہ کا یہ ہے کہ) فرعون سر زمین (مصر) میں بہت چڑھ گیا تھا اور اس نے وہاں کے باشندوں کو مختلف قسمیں کر رکھا تھا (اسی طرح کہ قبطیوں یعنی مصری لوگوں کو معزز بنا رکھا تھا اور سبطیوں یعنی بنی اسرائیل کو پست اور خوار کر رکھا تھا جس کا آگے بیان ہے) کہ ان (باشندوں) میں سے ایک جماعت (یعنی بنی اسرائیل) کا زور گھٹا رکھا تھا (اس طرح سے کہ) ان کے بیٹوں کو (جو نئے پیدا ہوتے تھے جلادوں کے ہاتھوں) ذبح کراتا تھا اور ان کی عورتوں (یعنی لڑکیوں) کو زندہ رہنے دیتا تھا (تاکہ ان سے خدمت لی جاوے و نیز ان سے اندیشہ بھی نہ تھا) واقعی وہ بڑا مفسد تھا (غرض فرعون تو اس خیال میں تھا) اور ہم کو یہ منظور تھا کہ جن لوگوں کا زمین (مصر) میں زور گھٹایا جا رہا تھا ہم ان پر (دنیوی و دینی) احسان کریں اور (وہ احسان یہ کہ) ان کو (دین میں) پیشوا بنادیں اور (دنیا میں) ان کو (اس ملک کا) مالک بنائیں اور (مالک ہونے کے ساتھ) ان کو (ملک بھی بنائیں یعنی زمین میں ان کو حکومت دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے تابعین کو ان (بنی اسرائیل) کی جانب سے وہ (ناگوار) واقعات دکھلائیں جن سے وہ بچاؤ کر رہے تھے (مراد اس سے زوال سلطنت و ہلاکت ہے کہ اسی سے بچاؤ کرنے کے لئے بنی اسرائیل کے بچوں کو ایک تعبیر خواب کی بناء پر جو فرعون نے دیکھا تھا اور نجومیوں نے تعبیر دی تھی قتل کر رہا تھا (کذا فی الدر المنثور) پس ہمارے قضاء و قدر کے سامنے ان لوگوں کی تدبیر کچھ کام نہ آئی، یہ اجمال قصہ کا ہوا) اور (تفصیل اس کی اول سے یہ ہے کہ جب موسیٰ ؑ اسی پر آشوب زمانہ میں پیدا ہوئے تو) ہم نے موسیٰ ؑ کی والدہ کو الہام کیا کہ (جب تک ان کا اخفا ممکن ہو) تم ان کو دودھ پلاؤ پھر جب تم کو ان کی نسبت (جاسوسوں کے مطلع ہونے کا) اندیشہ ہو تو (بےخوف و خطر) ان کو (صندوق میں رکھ کر) دریا (یعنی نیل) میں ڈال دینا اور نہ تو (غرق سے) اندیشہ کرنا اور نہ (مفارقت پر) غم کرنا (کیونکہ) ہم ضرور ان کو پھر تمہارے ہی پاس واپس پہنچا دیں گے اور (پھر اپنے وقت پر) ان کو پیغمبر بنادیں گے (غرض وہ اسی طرح دودھ پلاتی رہیں۔ پھر جب افشائے راز کا خوف ہوا تو صندوق میں بند کر کے اللہ کے نام پر نیل میں چھوڑ دیا، اس کی کوئی شاخ فرعون کے محل میں جاتی تھی یا تفریحاً فرعون کے متعلقین دریا کی سیر کو نکلے تھے۔ غرض وہ صندوق کنارے پر لگا) تو فرعون کے لوگوں نے موسیٰ ؑ کو (یعنی مع صندوق کے) اٹھا لیا تاکہ وہ ان لوگوں کے لئے دشمنی اور غم کا باعث بنیں، بلاشبہ فرعون اور ہامان اور ان کے تابعین (اس بارہ میں) بہت چوکے (اپنے دشمن کو اپنی بغل میں پالا) اور (جب وہ صندوق سے نکال کر فرعون کے سامنے لائے گئے تو) فرعون کی بی بی (حضرت آسیہ) نے (فرعون) سے کہا کہ یہ (بچہ) میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے (یعنی اس کو دیکھ کر جی خوش ہوا کرے گا تو) اس کو قتل مت کرو عجب نہیں کہ (بڑا ہو کر) ہم کو کچھ فائدہ پہنچاوے یا ہم اس کو (اپنا) بیٹا ہی بنالیں اور ان لوگوں کو (انجام کی) خبر نہ تھی (کہ یہ وہی بچہ ہے جس کے ہاتھوں فرعون کی سلطنت غارت ہوگی) اور (ادھر یہ قصہ ہوا کہ) موسیٰ ؑ کی والدہ کا دل (خیالات مختلفہ کے ہجوم سے) بیقرار ہوگیا (اور بیقراری بھی ایسی ویسی نہیں بلکہ ایسی سخت بیقراری کہ) قریب تھا کہ (غایت بیقراری سے) وہ موسیٰ ؑ کا حال (سب پر) ظاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل کو اس غرض سے مضبوط نہ کئے رہیں کہ یہ (ہمارے وعدہ پر) یقین کئے (بیٹھی) رہیں (غرض بمشکل انہوں نے دل کو سنبھالا اور تدبیر شروع کی وہ یہ کہ) انہوں نے موسیٰ ؑ کی بہن (یعنی اپنی بیٹی سے) کہا ذرا موسیٰ کا سراغ تو لگا سو (وہ چلیں اور یہ معلوم کر کے صندوق محل میں کھلا ہے محل میں پہنچیں، یا تو ان کی آمد و رفت ہوگی یا کسی حیلہ سے پہنچیں، اور) انہوں نے موسیٰ ؑ کو دور سے دیکھا اور ان لوگوں کو یہ خبر نہ تھی (کہ یہ ان کی بہن ہیں اور اس فکر میں آئی ہیں) اور ہم نے پہلے ہی سے (یعنی جب سے صندوق سے نکلے تھے) موسیٰ ؑ پر دودھ پلائیوں کی بندش کر رکھی تھی (یعنی کسی کا دودھ نہ لیتے تھے) سو وہ (اس حال کو دیکھ کر موقع پا کر) کہنے لگیں کیا میں تم لوگوں کو کسی ایسے گھرانے کا پتہ بتاؤں جو تمہارے لئے اس بچہ کی پرورش کریں اور وہ (اپنی جبلت کے موافق دل سے) اس کی خیر خواہی کریں (ان لوگوں نے ایسے وقت میں کہ دودھ پلانے کی مشکل پڑ رہی تھی اس مشورہ کو غنیمت سمجھا اور ایسے گھرانے کا پتہ پوچھا انہوں نے اپنی والدہ کا پتہ بتلا دیا چناچہ وہ بلائی گئیں اور موسیٰ ؑ ان کی گود میں دیئے گئے۔ جاتے ہی دودھ پینا شروع کردیا اور ان لوگوں کی اجازت سے چین سے اپنے گھر لے آئیں اور گاہے گاہے لے جا کر ان کو دکھلا آتیں) غرض ہم نے موسیٰ (علیہ السلام کو اس طرح) ان کی والدہ کے پاس (اپنے وعدہ کے موافق) واپس پہنچا دیا تاکہ (اپنی اولاد کو دیکھ کر) ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور تاکہ (فراق کے) غم میں نہ رہیں اور تاکہ (مرتبہ معائنہ میں) اس بات کو (اور زیادہ یقین کے ساتھ) جان لیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا (ہوتا) ہے لیکن (افسوس کی بات ہے کہ) اکثر لوگ (اس کا یقین نہیں رکھتے (یہ تعریض ہے کفار پر)۔
Top