بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 1
طٰسٓمّٓ
طٰسٓمّٓ : طا۔ سین۔ میم
طسم
نام اور کوائف اس سورة مبارکہ کا نام سورة القصص ہے ۔ قصص قصہ کی جمع ہے جس کا معنی واقعہ یا کہانی ہوتا ہے ، چونکہ اس سورة میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قارون اور بعض دیگر اقوام کے واقعات مذکور ہیں ۔ اس لیے اس کا نام سورة القصص ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تفصیلی واقعات کی نسبت سے اس سورة کا دوسرا نام سورة موسیٰ بھی بیان کیا جاتا ہے تا ہم زیادہ مشہور زیادہ سورة القصص ہی ہے۔ گزشتہ سورة الشعراء اور سورة النمل کی طرح یہ سورة بھی مکی زندگی کے آخری حصے میں نازل ہوئی ۔ اس کی بعض آیات دوران ہجرت حجفہ کے مقام پر نازل ہوئیں ۔ جن میں آپ کی تسلی دی گئی ہے ۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورة ہجرت سے پہلے مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی ۔ اس سورة مبارکہ کی اٹھاسی آیات اور نور کی رکوع ہیں اور یہ 454 کلمات اور 1104 حروف پر مشتمل ہے۔ مضامین سورة حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات مختلف سورتوں میں مختلف پہلوئوں سے بیان کیے گئے ہیں ۔ سورة کہف میں حضرت موسیٰ اور خضر (علیہما السلام) کے سفر کا واقعہ بیان ہوا تھا۔ پھر سورة طہٰ میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی برگزیدگی کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے کہ میں نے تم کو پسند کرلیا ہے اور رسالت کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ آگے سورة الشعراء میں موسیٰ (علیہ السلام) کا تبلیغی پہلو نمایاں ہے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام کس طرح فرعون اور قوم فرعون کو پہنچایا ۔ اور اب اس سورة مبارکہ میں زیادہ تر پیدائش سے لے کر بچپن کے حالات اور آپ کی ترتیب کا ذکر ہے۔ دیگر مکی سورتوں کی طرح اس سورة مبارکہ میں بھی بنیادی عقائد کا ذکر ہے توحید کے عقلی ، نقلی اور مشاہداتی دلائل پیش کیے گئے ہیں ۔ رسالت کا ذکر بھی آ گیا ہے اور خاص طور پر معاد کا تذکرہ ہے ۔ مکی زندگی کا آخری زمانہ مسلمانوں کے لیے بڑے مصائب و آلام کا زمانہ تھا۔ ہجرت کا حکم نازل ہونے والا تھا۔ مسلمان قریش مکہ کے مظالم کا شکار بنے ہوئے تھے تو ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعہ بیان کر کے اہل ایمان کو تسلی دی ہے کہ آپ دل برداشتہ نہ ہو ۔ یہ تکالیف صرف آپ ہی کو نہیں پہنچیں بلکہ آپ سے پہلے دیگر انبیاء (علیہم السلام) اور ان پیروکار بھی اسی قسم کے مصائب کا شکار ہوتے رہے ہیں ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ سورة میں حضور ﷺ کی کامیابی اور روشن مستقبل کا اشارہ بھی اشارہ پایا جاتا ہے جس طرح اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے متکبر ، مغرور اور ڈکٹیٹر دشمن کو ذلیل و خوار کیا ۔ اسی طرح آپ کے دشمن بھی ناکام ہوں گے اور کامیابی آپ ہی کے حصے میں آئیگی۔ حروف مقطعات اس سورة مبارکہ کی ابتداء بھی حروف مقطعات طسم سے ہوئی ہے۔ بعض 1 ؎ فرماتے ہیں کہ یہ حروف اس سورة کا نام ہے ۔ اور بعض 2 ؎ فرماتے ہیں کہ ان میں سے ہر حروف کا اشارہ خدا تعالیٰ کے کسی اسم پاک کی طرف ہے ، جیسے ط سے طیب سے س سے سمیع اور م سے مجید ۔ بعض دوسرے 3 ؎ مفسرین فرماتے ہیں کہ ط سے مراد طہارت ہے جس میں ظاہری اور باطنی ہر قسم کی طہارت آتی ہے ۔ باطنی طور پر نفس اور قلب کی طہارت ہے کہ انسان کا عقیدہ ، عمل اور اخلاق پاک ہو اور ظاہری طہارت میں جسم ، لباس اور خوراک کی طہارت مطلوب ہے۔ طہارت اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے اسی لیے 4 ؎ الطھور شطر الایمان کہا گیا ہے یعنی طہارت نصف ایمان ہے۔ 1 ؎۔ مظہری ص 45 ج 7۔ 2 ؎۔ مظہری ص 45 ج 7 ۔ 3 ؎۔ روح البیان ص 083 ج 6 ۔ 4 ؎ ص 811 ج 1 مسلم ( فیاض) بعض مفسرین 1 ؎ کرام فرماتے ہیں کہ س سے مراد وہ اسرار الٰہی جن کا تعلق بندوں کو مکلف بنانے سے ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ م کا اشارہ اللہ تعالیٰ کی منت اور اس کے احسان کی طرف ہے۔ منت عربی زبان میں احسان ہی کو کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر بالعموم اور اہل ایمان پر بالخصوص بیشمار احسانات فرماتے ہیں ۔ امام شاہ ولی 2 ؎ ولی اللہ دہلوی کشفی طور پر بتلاتے ہیں کہ ان حروف کا اشارہ انبیاء (علیہم السلام) کی حکمت فوقانی کی طرف ہے گویا یہ انبیاء (علیہم السلام) کے عالم بالا کی طرف ان کے مراتب و منازل اور اس تخلیط والے جہاں میں پاک ہدایت کے تعین کا بیان ہے۔ البتہ امام 2 ؎ جلال الدین سیوطی (رح) فرماتے ہیں کہ ان حروف کے متعلق بہتر طریقہ یہ ہے اللہ اعلم بمراد ہ بذلک یعنی ان حروف سے حقیقی مراد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور جو بھی اس کی مراد ہے۔ ہمارا اس پر ایمان ہے اور ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ بر حق ہے۔ توضیح البیان ارشاد ہوتا ہے تلک ایت الکتب المبین یہ کھول کر بیان کرنے والی کتاب کی آیتیں ہیں ۔ آیات کی توضیح و تشریح کبھی تو خود اللہ کے کلام میں ہوتی ہے کسی ایک جگہ اجمال ہے تو دوسری جگہ تفصیل مل جاتی ہے اور کبھی ان کی وضاحت نبی کی زبان سے ہوتی ہے۔ اور اگر کوئی معاملہ پھر بھی واضح نہ ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے معاملات کی وضاحت امت کے اہل علم کے ذریعے کرا دیتا ہے ۔ امت میں سے قرآن کو سب سے زیادہ جاننے والے صحابہ کرا م ؓ ہیں ۔ ان کی وضاحت قابل قبول ہوتی ہے۔ ان کے بعد تابعین عظام ہیں اور پھر ائمہ مجتہدین میں ہو استنباط کے ذریعہ مسائل کا حل پیش کرتے ہیں ۔ بہر حال فرمایا کہ یہ کھول کر بیان کرنیوالی کتاب کی آیات ہیں جن کے ذریعے حق واضح ہوجاتا ہے اور کوئی چیز حل طلب نہیں رہتی۔ فرعون کے مظالم آگے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی حق پرستی اور فرعون کے مظالم کی داستان بیان کی ہے تا کہ حضور نبی کریم (علیہ السلام) اور آپ کے صحابہ ؓ جان لیں کہ دنیا میں حق و باطل کا ہمیشہ سے ٹکرائو رہا ہے اور ہمیشہ اللہ کا کلمہ ہی بلند ہوا ہے۔ جابر و ظالم لوگ ہمیشہ تباہ و برباد ہوئے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے نتلوا علیک من نباء 1 ؎۔ درج البیان ص 083 ج 6 ۔ 2 ؎۔ الفوز الکبیر ص 801 ۔ 3 ؎۔ جلالین ص 4 ( فیاض) موسیٰ و فرعون بالحق ہم آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا حال ٹھیک ٹھیک بتلاتے ہیں ۔ اور ان واقعات سے عبرت وہ لوگ حاصل کریں گے۔ نقوم یومنون جو اللہ ، اس کے رسولوں ، اس کی کتابوں ، اس کے ملائتہ اور معاد پر ایمان رکھتے ہیں ۔ وہ جان لیں گے تمام تر مصائب و آلام کے باوجود آخری فتح انہی کی ہوگی ۔ ان فرعون علا فی الارض بیشک فرعون چڑھ گیا تھا ۔ زمین میں یعنی وہ غرور وتکبر کی وجہ سے اللہ کی زمین پر خود خدا بن بیٹھا تھا وجعل اھلھا شیعا ً اور اس نے اہل زمین یعنی اپنی رعایا کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اس نے اپنی قبطی قوم کو تو ہر طرح کی مرعات دے رکھی تھیں ۔ مگر اسرائیلی قوم کے متعلق فرمایا یستضعف طائفۃ منھم اس گروہ کو کمزور بنارکھا تھا ان پر ظلم و ستم ڈھاتا تھا۔ ان سے بیگار لی جاتی اور نہایت ہی اہانت آمیز سلوک کیا جاتا ۔ اس کے ظلم و ستم کا ایک نمونہ یہ تھا یذبح ابناء ھم وہ اسرائیلیوں کے بچوں کو ذبح کر ڈالتا تھا۔ ویسخی نساء ھم اور ان کی بچیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا تا کہ انہیں لونڈیاں بنا کر ان سے خدمت لی جاسکے۔ مفسرین 1 ؎ کرام بچوں کے قتل کی وجہ سے یہ بیان کرتے ہیں کہ فرعون نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک آگ شام و فلسطین کی طرف سے آئی ہے جو مصریوں کے گھروں کو جلا رہی ہے۔ اس نے کاہنوں اور ساحروں سے اس خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ تمہارا ملک کے زوال کا باعث وہ بچہ ہوگا جس کا تعلق و فلسطین سے ہوگا ظاہر ہے کہ شام و فلسطین سے تعلق اسرائیلیوں کا تھا جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں مصر میں وارد ہونے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ اس وقت وہ گنتی ہے افراد تھے مگر اب ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی تھی ۔ چناچہ اپنی سلطنت کو زوال سے بچانے کے لیے فرعون نے یہ تدبیر اختیار کی کہ اسرائیل گھر میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو اس کے والدین کے سامنے ذبح کروا ڈالتا ۔ مفسرین 2 ؎ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح فرعون نے کم و بیش نوے ہزار نوزائیدہ بچے قتل کروائے جو کہ پوری 1 ؎۔ طبری ص 72 ج 02 و در منثور ص 911 ج 5 و روح المعانی ص 34 ج 02 ۔ 2 ؎۔ کبیر ص 532 ج 42 (فیاض) انسانیت کے لیے بہت بڑا ظلم تھا ۔ فرمایا انہ کان من المفسدین بیشک وہ فرعون فساد کرنے والوں میں سے تھا ۔ فساد کا معنی خرابی ہوتا ہے اور مطلب یہ کہ فرعون ظلم و ستم کرنے میں ذرا شر و محسوس نہیں کرتا تھا وہ کمزور طبقے کو ظلم کا تختہ مشق بنائے رکھتا تھا۔ طبقات کشمکش اس آیت کریمہ میں اللہ نے دو طبقات کا ذکر فرمایا ہے جن میں سے ایک مراعت یافتہ اور دوسرے بےکس و مظلوم تھا ۔ یہ طبقاتی کشمکش آج بھی دنیا میں پائی جاتی ہے۔ ایک طبقے کو اس کے حق سے زیادہ دنیا اور دوسرے کو اس کے حق سے بھی محروم کردینا فرعونی پالیسی کا حصہ ہے۔ جب انگریز برصغیر پر قابض ہوگیا تو اس نے بھی لوگوں کو دو طبقات میں تقسیم کردیا تھا ۔ وہ اپنے وفاداروں کو عزت و احترام سے رکھتا تھا۔ ان کو بڑے بڑے خطابات ، عہدے اور انعام و اکرام دیئے جانے جبکہ وفاداری میں مشکوک لوگوں کو ان کے حق سے محروم کر کے انہیں کمزور تر کردیتا تا کہ وہ کسی وقت بھی ان کی سلطنت کے لیے خطرے کا باعث نہ بن سکیں ۔ کسانوں اور مزدوروں کو غریب سے غریب تر کردیا ۔ جب کہ آسودہ حال مگر حکومت کے وفاداروں کو مزید جاگیریں دے کر کمزور طبقے پر حاوی کردیا ۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی یہ پالیسی پائی جاتی ہے ، اس کا نتیجہ تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ کمزور طبقے پر احسان فرعون کی پالیسی تو یہ تھی کہ اسرائیلیوں کو کمزور سے کمزور تر بنا دیا جائے مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ارشاد ہوتا ہے ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ہمارا ارادہ یہ تھا کہ ہم احسان کریں ان لوگوں پر جن کو زمین میں کمزور و خیال کیا تھا ، اللہ کی منشاء یہ تھی کہ وہ اسرائیلیوں کو ذلت کی زندگی سے نکال کر عزت کر کسی پر بٹھائے ۔ فرمایا ہمارا پروگرام یہ بھی تھا ونجعلھم ائمۃ و نجعلھم الورثین کہ ہم ان کمزوروں کو غلامی سے نکال کر سردار بنا دیں اور پھر انہیں زمین میں وارث بنا دیں یعنی سلطنت بھی انہی کو عطا کردیں ، چناچہ تاریخ گواہ ہے کہ اللہ نے اسرائیلیوں کو پہلے شام و فلسطین کا وارث بنایا اور پھر مصر کی سلطنت بھی عطا کی ۔ اللہ نے ان کمزوروں کو بلندی تو عطا کی مگر بڑی آزمائش سے بعد ، سورة اعراف اور سورة یونس میں اللہ نے ان آزمائش کا ذکر فرمایا ہے۔ سورة اعراف میں موجود ہے کہ فرعون کے ظلم و جور سے تنگ آئے ہوئے اسرائیلیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے شکایت کی کہ آپ کی مدین سے واپسی سے قبل بھی ہم ظلم و ستم کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور آپ کے آنے کے بعد ہماری تکالیف میں کوئی فرق نہیں پڑا ۔ آپ نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہارا پروردگار عنقریب تمہارے دشمن کو ہلاک کر کے زمین کی خلافت تمہارے سپرد کرے گا ۔ لہٰذا فی الحال تم اللہ کی استعانت چاہو اور صبر سے کام لو ۔ اِنَّ الْاَرْضَ ِ اللہ ِقف یُوْرِثُہَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖط وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ (الاعراف : 831) زمین اللہ کی ہے ، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور بہتر انجام متقیوں کا ہی ہوگا ۔ اللہ نے فرمایا ہمارا منشاء یہ تھا ونمکین لھم فی الارض کہ ہم ان کمزوروں کو ہی زمین میں پختہ کردیں ۔ مغروروں کو ہٹا کر ایمان والوں کو قدم جما دیں اور انہیں شام و فلسطین اور مصر کی سلطنت عطا کردیں ۔ اللہ نے عام ایمانداروں سے بھی یہی وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں خلافت عطا کرے گا ۔ جیسے پہلے لوگوں کو عطا کی ۔ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ ( نور : 55) اور جس دین کو ان کے لیے پسند فرمایا ہے اس دین کو ان کے لیے مستحکم کر دیگا ۔ وہی کامیاب ہوں گے۔ استحکام کے لیے …کی ضرورت کسی مشن کو استحکام اس وقت حاصل ہوتا ہے جب قوم کا ہر ہر فرد ، ہر شہر اور ہر بستی کا ایک ایک باشندہ اس مشن سے واقف ہو ۔ اگر کسی مشن کا بعض کو پتہ ہو اور بعض کو علم ہی نہ ہو تو اس میں استحکام اور پختگی کیسے آئے گی ؟ اسلام بھی دنیا میں اسی لیے پختہ نہیں ہے کہ صرف دو فیصدی لوگ اس سے واقف ہیں ۔ باقیوں کو اسلام کے متعلق علم ہی نہیں ۔ جب تک اسلام کا پیغام سو فیصدی لوگوں تک نہیں پہنچتا ، اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں ہو سکتے ۔ اور اس کام کے لیے وسیع پیمانے پر تشہیر کی ضرورت ہے۔ آج دنیا میں دیکھ لیں عریانی ، فحاشی اور کھیل تماشے کی تشہیر ہو رہی ہے۔ ریڈیو ، ٹیلی ویژن ، اخبارات و رسائل سب اسی کام میں لگے ہوئے ہیں جن کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے میں انہی چیزوں کو استحکام حاصل ہو رہا ہے۔ فلموں اور ڈراموں کی تشہیرہو رہی ہے تو بچے بچے کی زبان پر وہی ڈائیلاگ ہیں ۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کھاد اور بیج کی بھی بڑی تشہیر کر رہے ہیں ، لہٰذا زمینداروں کی غالب اکثریت اسی طرف متوجہ ہوچکی ہے اسی طرح اگر دین اسلام کا استحکام منظور ہے تو اس کی نشرو اشاعت کے لیے پورے ذرائع ابلاغ کو کا م میں لانا ہوگا۔ تا کہ یہ پیغام ایک ایک فرد تک بار بار پہنچے اور وہ اس کی طرف متوجہ ہو سکے ، جب برائی کی تشہیر سے برائی پھیل سکتی ہے تو پھر نیعی کی تشہیر سے نیکی کیوں عام نہیں ہو سکتی ۔ کار پرواز ان ملک و ملت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ فرعون اور زمان کی سرزنش اللہ نے فرمایا کہ ہم کمزوروں کے قدم زمین میں مستحکم کرنا چاہتے ہیں ۔ و نری فرعون وھا من وجنود ھما منھم ما کانوا یحذرون اور ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ فرعون ، ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ چیز دکھا دیں جس سے وہ ڈرتے تھے ، ظاہر ہے کہ فرعونیوں کو اپنی سلطنت کے زوال کا خطرہ تھا اور اسی سے بچنے کے لئے انہوں نے نوے ہزار نوزائیدہ بچے قتل کروا دیے۔ مگر اللہ نے فرمایا کہ جس چیز سے وہ ڈرتے تھے ہم وہی کچھ کر کے دکھائیں گے یعنی ان کی سلطنت کو زوال آ کر رہے گا ، اور آئے گا بھی اس قوم کے ایک فرد کے ذریعے جس کو انہوں نے غلام بنا رکھا تھا اور ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتے تھے۔ اللہ نے اسی قوم کے ایک فرد کی خود فرعون کے گھر میں پرورش کرائی اور پھر اسی کے ذریعے فرعون کی سلطنت کو ختم کیا ۔ یہاں پر فرعون کے ساتھ ہامان کا بھی ذکر ہے جو کہ اس کا وزیر تھا ۔ ہامان کا ذکر پہلی دفعہ آ رہا ہے ، البتہ اگلی سورتوں میں بھی آئے گا ۔ اس کے علاوہ قارون کا ذکر بھی آئے گا ۔ جو سرمایہ دارو کا پیشوا تھا۔ بہر حال اللہ نے ان تمام طاغوتی طاقتوں کے مقابلے میں دین حق کی کامیابی کی پیشن گوئی فرما دی ۔
Top