Tafseer-e-Saadi - Faatir : 24
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا١ؕ وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْهَا نَذِیْرٌ
اِنَّآ : بیشک ہم اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ بَشِيْرًا : خوشخبردی دینے والا وَّنَذِيْرًا ۭ : اور ڈر سنانے والا وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ اُمَّةٍ : کوئی امت اِلَّا خَلَا : مگر گزرا فِيْهَا : اس میں نَذِيْرٌ : کوئی ڈرانے والا
ہم نے تم کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت نہیں مگر اس میں ہدایت کرنے والا گزر چکا ہے
آیت 24 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ حکمت الٰہی اور اس نے اپنے بندوں کو فطرت عطا کی ہے، ان کے لحاظ سے اضداد برابر نہیں ہوتیں، فرمایا : (وما یستوی الاعمی) ” اور نہیں ہے برابر اندھا “ جس کی بینائی نہیں۔ (آیت) ” اور دیکھنے والا، نہ انندھیرے اور روشنی، نہ سایہ اور دھوپ (برابر ہیں) اور نہ زندے اور مردے یکساں ہوتے ہیں۔ “ جیسا کہ تمہارے نزدیک بھی یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت اور کسی شک و شب ہے سے پاک ہے کہ مذکورہ بالا تمام چیزیں برابر نہیں ہیں، تب تمہیں یہ حقیقت بھی معلوم ہونی چاہیے کہ معنوی طور پر متضاد اشیا میں عدم مساوات زیادہ اولیٰ ہے۔ پس مومن اور کافر برابر نہیں ہیں، نہ ہدایت یافتہ اور گمراہ برابر ہیں، نہ عالم اور جاہل برابر ہیں، نہ اہل جنت اور اہل جہنم برابر ہیں، نہ زندہ دل اور مردہ دل برابر ہیں۔ ان مذکورہ اشیا کے درمیان اتنا فرق اور اس قدر تفاوت ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جب تمام اشیا کے مراتب معلوم ہوگئے اور ان کے درمیان امتیاز واقع ہوگیا اور وہ اشیا اپنی اضداد میں سے واضح ہوگئیں جن کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہیے ، تو ایک دور اندیش اور عقل مند شخص کو اپنے لئے وہی چیز منتخب کرنی چاہیے جو بہتر اور ترجیح دیئے جانے کی مستحق ہے۔ (ان اللہ یسمع من یشآء) ” بیشک اللہ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے۔ “ یعنی جسے چاہتا ہے فہم و قبول کی سماعت عطا کرتا ہے کیونکہ وہی راہ دکھانے والا اور توفیق عطا کرنے والا ہے۔ (وما انت بمسع من فی القبور) ” اور آپ ان کو جو قبروں میں پڑے ہیں نہیں سنا سکتے۔ “ یعنی جن کے دل مردہ ہوچکے ہیں آپ ان کو نہیں سنا سکتے، جس طرح آپ کا قبر کے مردوں کو بلانا ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا، اسی طرح اعراض کرنے والے معاند کو بھی آپ کو بلانا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ آپ کا کام صرف ڈرانا اور ان تک اس حکم کو پہنچا دینا ہے جس کے ساتھ آپ کو بھیجا گیا ہے، خواہ وہ اس کو قبول کریں یا نہ کریں (ان انت الا نذیر انا ارسلنک بالحق) ” آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں، بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ “ یعنی ہم نے آپ کو مجرد حق کے ساتھ بھیجا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وقت مبعوث فرمایا جب رسولوں کی بعثت منقطع تھی، راہ حق کے نشان گم ہوچکے تھے، علم مٹ چکا تھا اور خلائق آپ کی بعثت کی سخت ضرورت مند تھی۔ تب اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا اور یوں آپ کو دین قیم اور صراط مستقیم کے ساتھ مبعوث فرمایا جو باطل نہیں، سراسر حق ہے، اسی طرح ہم نے آپ کو یہ دین قیم اور صراط مستقیم کے ساتھ مبعوث فرمایا جو باطل نہیں، سراسر حق ہے، اسی طرح ہم نے آپ کو یہ قرآن عظیم دے کر بھیجا جو دانائی سے لبریز، یاد دہانی پر مشتمل، سراسر حق اور صداقت ہے۔ (بشیرا) آپ کو ان لوگوں کے لئے دنیاوی اور اخروی ثواب کی خوش خبری سنانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے جو آپ کی اطاعت کریں۔ (ونذیراً ) اور ان لوگوں کے لئے دنیاوی اور اخروی عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے جو آپ کی نافرمانی کریں اور آپ کوئی نئے رسول تو نہیں ہیں۔ نہیں ہے (من امۃ) ” کوئی بھی امت “ سابقہ امتوں اور گزشتہ ادوار میں سے (الا خلا فیھا نذیر) ” مگر اس میں ڈرانے والا آیا ہے “ تاکہ ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو۔ (لیھلک من ھلک عن بینۃ ویحیی من حی عن بینۃ) (لانفال :32/8) ” تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل سے ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل سے زندہ رہے۔ “
Top