Tafseer-e-Saadi - Az-Zukhruf : 40
اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ اَوْ تَهْدِی الْعُمْیَ وَ مَنْ كَانَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَفَاَنْتَ : کیا بھلا تو تُسْمِعُ الصُّمَّ : تو سنوائے گا بہروں کو اَوْ تَهْدِي : یا تو راہ دکھائے گا الْعُمْيَ : اندھوں کو وَمَنْ كَانَ : اور کوئی ہو وہ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : کھلی گمراہی میں
کیا تم بہرے کو سنا سکتے ہو ؟ یا اندھے کو راستہ دکھا سکتے ہو ؟ اور جو صریح گمراہی میں ہو اسے (راہ پر لاسکتے ہو) ؟
آیت 40 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو اہل تکذیب کے ایمان نہ لانے اور آپ کی دعوت کو قبول نہ کرنے پر تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے، نیز واضح فرماتا ہے کہ ان میں کوئی بھلائی ہے نہ پاکیزگی جو انہیں ہدایت کی طرف بالئے۔ (افانت تسمع الصم) ” کیا آپ بہرے کو سنا سکتے ہیں۔ “ جو سنتے نہیں (اوتھدی العمی) ” یا اندھے کو راستہ دکھا سکتے ہیں ؟ “ جو دیکھتے نہیں یا کیا آپ اس شخص کی راہنمائی کرسکتے ہیں (آیت) ” جو واضح گمراہی میں مبتلا ہے ؟ کیونکہ وہ اپنی گمراہی اور اس کے بارے میں اپنی پسندیدگی کو خوب جانتا ہے۔ پس جس طرح بہرہ آوازوں کو نہیں سن سکتا اور اندھا دیکھ نہیں سکتا اسی طرح گمراہ شخص جو واضح گمراہی میں مبتلا ہے، ہدایت نہیں پاسکتا۔ قرآن سے ان کی روگردانی کی بنا پر ان کی فطرت اور عقل فاسد ہوگئی اور انہوں نے عقائد فاسدہ گھڑ لئے اور ان میں صفات خبیثہ پیدا ہوگئیں جو انہیں ایمان لانے سے روکتی ہیں اور ان کے اور ہدایت کے درمیان حائل ہیں اور انکی تباہی میں اضافے کی موجب ہیں۔ اب ان لوگوں کے لئے عذاب اور سزا کے سوا کچھ باقی نہیں اور یہ عاب انہیں دنیا ہی میں دے دیا جائے گا یا آخرت میں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فاما نذھبن بک فانا منھم منتقمون) یعنی ہم نے ان کے ساتھ جس عذاب کا وعدہ کیا ہے، آپ کو وہ عذاب دکھانے سے پہلے اگر آپ کو اٹھا لیں تو ہماری سچی خبر کی بنا پر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ان سے انتقام لیں گے۔ (اونرینک الذی وعدنھم) ” یا تمہیں دکھا دیں (وہ عذاب) جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ “ (فانا علیھم مقتدرون) ” پس بیشک ہم ان پر قابو رکھتے ہیں۔ “ مگر اس عذاب کی تعجیل و تاخیر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تاقضے پر موقوف ہے۔ یہ ہے آپ کا حال اور ان مکذبین کا حال، پس آپ (فاستمسک بالذی اوحی الیک) اپنے افعال میں اس چیز کو مضبوطی سے تھامے رکھیں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور ان صفات سے تمصف ہوں جن سے متصف ہونے کا آپ کو یہ وحی حکم دیتی ہے۔ اس کی طرف دعوت دیں، اس کو اپنی ذات اور دوسرے پر نافذ کرنے کی خواہش رکھیں۔ (انک عل یصراط مستقیم) بیشک آپ سیدھے راستے پر ہیں، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو آپ پر اس سے تمسک کرنے اور اس سے راہنمائی حاصل کرنے کو اور زیادہ واجب کرتی ہے۔ جب آپ جانت یہیں کہ یہ حق، عدل اور سچائی ہے تو آپ اسی اصل اصیل پر قائم رہیں جبکہ دوسرے لوگوں نے شرک، اوہام اور ظلم وجور کو بنیاد بنا رکھا ہے۔ (وانہ) یعنی یہ قرآن کریم (لذکر لک و لقومک) ” تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے ذکر (نصیحت) ہے۔ “ تم لوگوں کے لئے فخر، منقبت جلیلہ اور ایسی نعمت ہے جس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے نہ اس کے وصف کی معرفت حاصل کی جاسکتی ہے، نیز یہ قرآن تمہارے سامنے اس دنیوی اور آخروی بھلائی کو بیان کرتا ہے جس پر یہ مشتمل ہے اور تمہیں اس کی ترغیب دیتا ہے اور تمہیں برائی کے بارے میں بتاتا اور اس سے ڈراتا ہے (وسوف تسئلون) ” اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا۔ “ اس کے بارے میں کہ آیا تم نے اس کو قائم کر کے رفعت حاصل کی اور اس سے فائدہ اٹھایا، یا تم نے اس کو قائم نہیں کیا تو یہ تمہارے خلاف حجت ہوا اور تمہاری طرف سے اس نعمت کی ناسپاسی گردانی جائے ؟ (آیت) ” اور ہمارے ان بنیوں سے پوچھو ! جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا، کیا ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کئے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے ؟ “ یہاں تک کہ وہ الہ مشرکین کے لئے ایک قسم کی حجت بن جاتے جس میں وہ انبیاء ومرسلین میں سے کسی کی اتباع کرتے۔ اگر آپ ان سے پوچھیں اور انبیاء ومرسلین کے احوال کی خبر دریافت کریں تو آپ ایک بھی ایسا رسول نہیں پائیں گے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور ہستی کو معبود بنا لینے کی دعوت دیتا ہو، آپ دیکھیں گے اول سے لے کر آخر تک تمام انبیاء اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف دعوت دیتے ہیں، چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” اور ہم نے ہر قوم میں ایک رسول مبعوث کیا جو انہیں دعوت دیتا تھا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ “ ہر رسول نے، جس کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا، اپنی قوم سے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ مشرکین کے پاس اپنے شرک پر کوئی دلیل نہیں، عقل صحیح کی رو سے نہ رسولوں کی تعلیمات میں سے نقل صحیح کی رو سے۔
Top