Tafseer-al-Kitaab - Az-Zukhruf : 28
وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَجَعَلَهَا : اور اس نے بنادیا اس کو كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً : ایک بات باقی رہنے والی فِيْ : میں عَقِبِهٖ : اس کی اولاد میں۔ اس کے پیچھے لَعَلَّهُمْ : شاید کہ وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ لوٹ آئیں
اور (ابراہیم) اس عقیدہ (توحید) کو اپنی اولاد میں ایک قائم رہنے والی بات (کی حیثیت سے) چھوڑ گیا تاکہ لوگ (آئندہ بھی توحید کی طرف) رجوع کریں
[9] یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کے ذکر سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ قریش کا یہ دعویٰ بالکل باطل ہے کہ جس دین کی وہ پیروی کر رہے ہیں یہ ان کو ان کے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملا ہے۔ ان کے اصل جد امجد تو ابراہیم (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے شرک سے اعلان برأت کیا۔ پھر یہ کیسے کہتے ہیں کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے طریقے پر چل رہے ہیں۔
Top