Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 170
وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَ صَمُّوْا كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ
وَ : اور حَسِبُوْٓا : انہوں نے گمان کیا اَلَّا تَكُوْنَ : کہ نہ ہوگی فِتْنَةٌ : کوئی خرابی فَعَمُوْا : سو وہ اندھے ہوئے وَ : اور صَمُّوْا : بہرے ہوگئے ثُمَّ : تو تَابَ : توبہ قبول کی اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان کی ثُمَّ : پھر عَمُوْا : اندھے ہوگئے وَصَمُّوْا : اور بہرے ہوگئے كَثِيْرٌ : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌ : دیکھ رہا ہے بِمَا : جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور یہ خیال کرتے تھے کہ (اس سے ان پر) کوئی آفت نہیں آنے کی تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے۔ پھر خدا نے ان پر مہربانی فرمائی (لیکن) پھر ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہوگئے۔ اور خدا ان کے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔
آیت 71 (لقد اخذنا میثاق بنی اسرائیل) ” ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ‘ یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کے واجبات کو قائم کرنے کے بارے میں ان سے بھاری عہد لیا جن کے بارے میں گزشتہ صفحات میں (ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل و بعثنا منھم اثنی عشرنقیباً ۔۔۔ الآیۃ) (المائدہ :12/5) کی تفسیر کے ضمن میں بحث گزر چکی ہے۔ (وارسلنا الیھم رسلاً ) ” اور ان کی طرف رسول بھیجے “ جو پے در پے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے تھے اور ان کو رشد و ہدایت کی طرف بلاتے رہتے تھے مگر یہ چیز ان کے کسی کام آئی نہ اس نے کوئی فائدہ دیا (کلما جآء ھم رسول بما لا تھوی انفسھم) ” جب لایا کوئی رسول وہ حکم جس کو ان کے نفس نہیں چاہتے تھے “ یعنی حق کو ان کے نفس پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے حق کو جھٹلایا، اس سے عناد رکھا اور اس کے ساتھ بدترین معاملہ کیا (فریقاً کذبوا و فریقاً یقتلون) ” انہوں نے رسولوں کے ایک گروہ کی تکذیب کی اور ایک گروہ کو قتل کیا۔ “ وحسبوآ الا تکون فتنہ) ” اور یہ خیال کرتے تھے کہ کوئی آفت نہیں آنے کی۔ “ یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی نافرمانی اور ان کی تکذیب کی وجہ سے ان پر عذاب نہیں آئے گا نہ ان کو سزا دی جائے گی اور وہ اپنے باطل پر ہمیشہ قائم رہیں گے (فعموا وصموا) ” پس وہ (حق دیکھنے سے) اندھے اور (حق بولنے سے) گونگے ہوگئے “ (ثم تاب اللہ علیھم) ” پھر اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی “ یعنی پھر اللہ تعالیٰ نے ان لغزشوں کو نظر انداز کردیا جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے پاس توبہ کی اور اس کی طرف رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی (ثم) پھر انہوں نے اس توبہ پر دوام نہ کیا یہاں تک کہ ان کے اکثر لوگ بدترین احوال کی طرف پلٹ گئے (عموا و صموا کثیر منھم) ” ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہوگئے۔ “ یعنی انہی اوصاف کے ساتھ وہ پھر اندیھ اور گونگے ہوگئے۔ ان میں سے بہت کم لوگ اپنی توبہ اور ایمان پر قائم رہے (واللہ بصیر بما یعملون) ” اور اللہ وہ جو کچھ کرتے ہیں، اس کو دیکھتا ہے “ پس اللہ تعالیٰ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کی جزا دے گا۔ اگر اچھا عمل ہوا تو اچھی جزا ہوگی اور اگر برا عمل ہوا تو بری جزا ہوگی۔
Top