Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 170
فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۙ وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِهِمْ مِّنْ خَلْفِهِمْ١ۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۘ
فَرِحِيْنَ : خوش بِمَآ : سے۔ جو اٰتٰىھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ فَضْلِھٖ : اپنے فضل سے وَيَسْتَبْشِرُوْنَ : اور خوش وقت ہیں بِالَّذِيْنَ : ان کی طرف سے جو لَمْ يَلْحَقُوْا : نہیں ملے بِھِمْ : ان سے مِّنْ : سے خَلْفِھِمْ : ان کے پیچھے اَلَّا : یہ کہ نہیں خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْھِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
خوشی کرتے ہیں اس پر جو دیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے اور خوش وقت ہوتے ہیں ان کی طرف سے جو ابھی تک نہیں پہنچے ان کے پاس ان کے پیچھے سے261 اس واسطے کہ نہ ڈر ہے ان پر اور نہ ان کو غم262
261 فَرِحِیْن۔ یہ یُرْزَقُوْنَ کی ضمیر سے حال ہے اور فَضلِہٖ سے وہ انعام واکرام مراد ہے جو شہادت کے بعد جنت میں ان کو عطا کیا گیا ہے جنت کی یہ خاص نعمتیں اور یہ اعزاز واکرام چونکہ شہادت کی جزاء ہے اس لیے نعمت شہادت بھی فَضْلِہٖ میں داخل ہے۔ وھو فی الشھادۃ وما ساق الیھم من الکرامۃ والتفضیل علی غیرھم من کو نھم احیاء مقربین معجلا لھم رق الجنۃ ونعیمھا (مدارک ج 1 ص 151 یعنی بما اعطاھم من الثواب والکرامۃ والاحسان والافضال فی دار النعیم (خازن ج 1 ص 376) مطلب یہ کہ درجہ شہادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عالم برزخ میں ان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے۔ وہ ان میں خوش وخرم ہیں۔ وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ الخ یہ یُرْزَقُوْنَ پر معطوف ہے اور اَلَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِھِمْ سے وہ مجاہدین مراد ہیں جن کو یہ شہداء جہاد میں مصروف چھوڑ کر آئے تھے جب شہداء نے عالم برزخ میں اللہ تعالیٰ کے بےپایاں انعام واکرام اور وہاں کی عیش و عشرت اور نعیم مقیم کو دیکھا تو انہیں مجاہدیں کے حق میں بہت خوشی ہوئی کہ جب وہ شہادت پا کر وہاں پہنچیں گے تو ان کو بھی اسی اعزاز وانعام سے نوازا جائے گا۔ ھم الشھداء الذین یاتونھم بعد من اخوانھم المؤمنین الذین ترکوھم یجادھون فیستشھدون فرحوا لانفسھم و لمن یلحق بھم من الشھداء اذ یصرون الی ما صاروا الیہ من کر امۃ اللہ تعالیٰ (بحر ج 3 ص 114) ۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اَلَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِھِمْ میں تمام ایمان والوں کی طرف اشارہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب شہداء عالم برزخ میں پہنچے اور اللہ کے انعام و احسان کا معاینہ کیا تو ان کو عین الیقین حاصل ہوگیا کہ دین اسلام ہی دین حق ہے اس لیے ان کو تمام مؤمنین کے بارے میں خوشی ہوئی کہ اگر ان کا خاتمہ ایمان اور دین اسلام پر ہی ہوا تو ان کا انجام بہت عمدہ ہوگا اور وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ثواب وجزا حاصل کریں گے۔ الاشارۃ بالاستبشار للذین لم یلحقوا بھم الی جمیع المؤمنین وان لم یقتدروا و لکنہم لما عاینوا ثواب اللہ وقع الیقین بان دین الاسلام ھو الحق الذین یثیب اللہ علیہ فھم فرحون لانفسہم بما اٰتاھم اللہ من فضلہ مستبشرون للمؤمنین الخ (قرطبی ج 4 ص 275) ۔ 262 یہ اَلَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِھِمْ سے بدل الاشتمال ہے یا منصوب بنزع خافض ہے اور اصل میں لئلا یا بان لا تھا اور یَسْتَبشِرُوْنَ کے مفعول لہ کی جگہ واقع ہے (روح ج 4 ص 123) بہر صورت اس میں شہداء کی خوشی کا اصل متعلق بیان کیا گیا ہے یعنی شہداء کو زندہ مجاہدین یا قیامت تک ہونے والے تمام مؤمنین کے بارے میں خوشی اس لیے ہوگی کہ آخرت میں ان (مجاہدین اور مومنین) کو نہ کسی قسم کا خوف لاحق ہوگا اور نہ غم، تو خوشی کا منشا مجاہدین اور مؤمنین کی ذوات و اشخاص نہیں بلکہ ان کا نیک انجام اور آخرت کی نعیم مقیم ہے۔ خوف (ڈر) کا اطلاق آنیوالے نقصان یا مستقبل میں نازل ہونے والی کسی ناپسندیدہ بات پر ہوتا ہے اور حزن (غم) گذشتہ منفعت کے فوت ہونے پر ہوتا ہے مطلب یہ کہ ان شہداء اور مومنین کو آخرت میں نہ تو قیامت کے احوال اور عذاب و عقاب کا ڈر ہوگا اور نہ ہی دنیا کی عیش و عشرت کے ہاتھ سے جانے کا غم۔ لاخوف علیھم فیما سیاتیھم من احوال القیامۃ ولا حزن لھم فیما فاتھم من نعیم الدنیا (کبیر ج 3 ص 143) ۔
Top