Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 24
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ مَّا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ١ۙ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَۙ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے مَّاذَآ : کیا اَنْزَلَ : نازل کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اَسَاطِيْرُ : کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
اور جب ان لوگوں سے پوچھا جاتا ہے وہ کیا بات ہے جو تمہارے پروردگار نے اتاری ہے ؟ تو کہتے ہیں کچھ نہیں محض اگلے وقتوں کے افسانے ہیں
تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے ؟ کہتے ہیں کہ پہلوں کی کہانیاں ہیں : 29۔ یہ ان کی گوہر افشانی کس کے متعلق ہے ؟ قرآن کریم جیسی کتاب کے متعلق ، مشرکین مکہ تو خیر اپنی بیخبر ی تاریک خیالی اور جہالت کے لئے ضرب المثل ہی تھے کمال یہ ہے کہ آج کل بڑے بڑے ” روشن خیال “ مدعیان علم و دانش بہک بہک کر بس یہی کہتے ہیں کہ ” قرآن “ میں ہے ہی کیا ؟ یہود ونصاری کی کتابوں کے کچھ قصے ہی تو ہیں جو وہاں سے لے کر یہاں بیان کردیئے گئے ہیں ایسا کیوں ہے ؟ فرمایا دراصل نبی اعظم وآخر ﷺ کی دعوت کا چرچا جب اطراف واکناف میں پھیلا تو مکہ کے لوگ جہاں کہیں جاتے تھے تو ان سے پوچھا جاتا تھا کہ تمہارے ہاں جو صاحب نبی بن کر آئے ہیں و وہ کیا تعلیم دیتے ہیں ؟ قرآن کس قسم کی کتاب ہے ؟ اس کے مضامین کیا ہیں ؟ ایسے سوالوں کا جواب کفار مکہ ہمیشہ ایسے الفاظ میں دیتے تھے جن سے سائل کے دل میں نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی کتاب کے متعلق کوئی نہ کوئی شک بیٹھ جائے یا کم از کم اس کو آپ ﷺ سے اور آپ ﷺ کی نبوت کے معاملے سے کوئی دلچسپی باقی نہ رہے ، لیکن یہ بات ان کی سمجھ میں بھی آتی تھی کہ جہاں اس طرح کے سوالات سو آدمیوں کو مشکوک کرتے ہیں وہاں سو میں سے دو چار کو وہ خود دیکھنے اور سمجھنے پر مجبور بھی کرتے ہیں اور اس طرح یہ تحریک کے آہستہ آہستہ چلنے کا باعث وہ خود ہی بن رہے ہیں ۔ نالائق ساری زندگی یہ بات نہ سمجھ سکے اور نہ چاہنے کے باوجود انہوں نے خود اس پیغام کو دوسروں تک پہنچایا کیونکہ وہ کتنے ہی تھے جنہیں انہوں نے اس طرح کی تعلیم کی اور وہ خود درودراز سے چل کر آئے اور یہیں کہ ہو کر رہ گئے کیونکہ سچ جب کسی کی سمجھ میں آجائے تو پھر وہ کسی کے نکالے بھی نہیں نکلتا ۔
Top