Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 170
فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۙ وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِهِمْ مِّنْ خَلْفِهِمْ١ۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۘ
فَرِحِيْنَ : خوش بِمَآ : سے۔ جو اٰتٰىھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ فَضْلِھٖ : اپنے فضل سے وَيَسْتَبْشِرُوْنَ : اور خوش وقت ہیں بِالَّذِيْنَ : ان کی طرف سے جو لَمْ يَلْحَقُوْا : نہیں ملے بِھِمْ : ان سے مِّنْ : سے خَلْفِھِمْ : ان کے پیچھے اَلَّا : یہ کہ نہیں خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْھِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جو کچھ خدا نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں۔ اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے اور (شہید ہوکر) ان میں شامل نہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں کہ (قیامت کے دن) ان کو بھی نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
فرحین بما اتھم اللہ من فضلہ اللہ جو کچھ ان کو اپنے فضل سے عطا فرماتا ہے وہ اس پر خوش ہوتے ہیں کیونکہ وہاں تک کسی عقل کی رسائی نہیں نہ اس کی تفصیل لفظوں میں بیان کی جاسکتی ہے۔ عبد الرزاق نے مصنف میں اور ابن ابی شیبہ نے اور احمد اور مسلم اور ابن المنذر نے مسروق کا قول بیان کیا ہے کہ ہم نے حضرت عبد اللہ یعنی ابن مسعود سے ان آیات کی تشریح پوچھی فرمایا : ہم نے بھی رسول اللہ سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا تو حضور ﷺ نے فرمایا تھا ان کی روحیں سبز پرندوں کے پوٹوں میں ہوتی ہیں۔ عبد الرزاق کی روایت میں ہے کہ شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کی طرح ہوتی ہیں (بہر حال) ان پرندوں کے لیے سونے کی قندیلیں (پنجرے) عرش سے آویزاں ہیں وہ جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں۔ پھر لوٹ کر قندیلوں میں آجاتی ہیں۔ اللہ ان کو ایک بار جھانکتا ہے اور فرماتا ہے کیا تم کچھ چاہتے ہو ایسا (روزانہ) تین بار کرتا ہے۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ اللہ فرماتا ہے مجھ سے مانگو جو کچھ چاہو وہ جواب دیتے ہیں اے رب ہم کیا مانگیں جس جنت میں ہم چاہتے ہیں سیر کرتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ بغیر مانگے ان کو نہیں چھوڑا جاتا تو عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں کے اندر دوبارہ لوٹا دیا جائے تاکہ ہم ایک بار اور تیرے راستے میں جہاد کریں۔ اللہ فرماتا ہے میں لکھ چکا ہوں کہ دوبارہ دنیا میں لوٹنا نہیں ہوگا) آخر جب اللہ دیکھتا ہے کہ ان کی کوئی ضرورت (باقی) نہیں تو ان کو (ان کی حالت پر) چھوڑ دیا جاتا ہے۔ و یستبشرون اور وہ بشارت پائیں گے یعنی مسرور و خوش ہوں گے۔ بالذین لم یلحقوا بھم ان لوگوں کی جو ان سے نہیں ملے ہیں یعنی جن کو دنیا میں زندہ ایمان، اطاعت اور جہاد پر چھوڑ کر آئے تھے یا یہ مراد کہ جو مرتبہ میں ان کو نہیں پہنچے۔ من خلفھم ان کے پیچھے والوں میں سے یعنی بعد کے زمانہ والے یا مرتبہ میں پیچھے رہنے والے۔ الا خوف علیھم و لا ھم یحزنون کہ ان کو نہ کوئی خوف ہے نہ ان کو رنج ہے (یعنی نہ آئندہ تکلیف کا خوف ہے نہ دنیا کی زائل شدہ نعمت کا رنج) ممکن ہے آیت کا یہ معنی ہو کہ وہ اپنے ان بھائیوں کے سلسلہ میں جو ابھی نہیں مرے ہیں خوش ہوں کہ شہداء پر (زندہ) بھائیوں کی طرف سے کچھ اندیشہ نہیں یعنی بھائیوں کے حقوق جو شہداء کے ذمے رہ گئے تھے ان کا کوئی اندیشہ نہیں کیونکہ اللہ (شہداء کی طرف سے) اہل حقوق کو راضی کردے گا اور دعوے سے دست بردار کرا دے گا۔ میں کہتا ہوں یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ شہداء کے بھائی بند اور دوست جو مرتبہ میں شہداء کے درجہ کو نہیں پہنچے شہداء ان کے معاملہ میں بشارت پائیں گے اور خوش ہوں گے کہ ان کے بھائی بندوں کو بھی عذاب کا کچھ اندیشہ نہیں اور نہ ان کو رنج ہوگا کیونکہ اللہ نے شہداء کو اپنے بھائی بندوں کی شفاعت کرنے کا حق عطا فرمایا ہے۔ ابو داؤد اور ابن حبان نے حضرت ابو درداء کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے خود سنا رسول اللہ فرما رہے تھے شہید اپنے ستر گھروالوں کی شفاعت کرے گا۔ احمد اور طبرانی نے حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی روایت سے اور ترمذی و ابن ماجہ نے حضرت مقدام بن معدیکرب کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔ ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت عثمان بن عفان کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : قیامت کے دن انبیاء شفاعت کریں گے پھر علماء پھر شہداء بزار نے بھی یہ حدیث لکھی ہے اور آخر میں اتنا زائد لکھا ہے کہ پھر موذن۔ میں کہتا ہوں حدیث میں جن علماء کو شفاعت میں شہداء پر سبقت عطا فرمائی ہے شاید ان سے مراد وہ علماء راسخین ہیں جو حقیقت کے عالم ہیں۔
Top