Tafseer-Ibne-Abbas - Hud : 59
اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ١ؕ وَ فَرِحُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا مَتَاعٌ۠   ۧ
اَللّٰهُ : اللہ يَبْسُطُ : کشادہ کرتا ہے الرِّزْقَ : رزق لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کے لیے وہ چاہتا ہے وَيَقْدِرُ : تنگ کرتا ہے وَفَرِحُوْا : اور وہ خوش ہیں بِالْحَيٰوةِ : زندگی سے الدُّنْيَا : دنیا وَمَا : اور نہیں الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی فِي : مقابلہ (میں) الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر (صرف) مَتَاعٌ : متاع حقیر
اللہ جس کی چاہے روزی فراخ کرتا ہے اور تنگ کرتا ہے ۔ اور وہ حیات دنیا سے خوش ہیں ۔ حالانکہ حیات دنیا آخرت کے مقابلہ میں کچھ نہیں ، مگر تھوڑا فائدہ (ف 2)
(ف 2) عام طور پر حق کی مخالفت اس لئے کی جاتی ہے ، کہ ایثار میں بظاہر خسارہ ہے ، بھوک و افلاس کا خطرہ ہے ، دیندار انسان کے لئے تکلفات کا حصول ناممکن ہے ، قرآن حکیم اس ہمہ گیر مغالطہ کی تردید فرماتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے کہ رزق کی کشائش اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اس کا تعلق بےدینی اور الحاد سے نہیں ، بہت سے ملحد ایسے ہیں جو بھوکوں مر رہے اور بہت سے مومن ہیں کہ اللہ کی بہت نعمتیں انہیں میسر ہیں ، اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ کے بہت سے بندوں کو گاڑھا اور کزی نہیں ملتا ، کہ تن ڈھانک اور بےدین بدمعاش مخمل وکمخواب کے بستروں پر محو خواب ہیں ، یہ خدا کا دین ہے ، جسے جو چاہے دے اور جسے چاہے محروم رکھے ، البتہ اس نے رزق کے حصول کے کچھ قواعد ضرور ارشاد فرمائے ہیں ، وہ قومیں جو ان اصولوں کو ملحوظ رکھتی ہیں ، اور ان پر عمل پیرا ہوتی ہیں ، مالدار ہیں اور وہ جو ان قواعد سے تغافل کرتی ہیں ، افلاس میں مبتلا ہیں ۔ مومن و کافر میں امتیاز یہ ہے کہ مومن دنیا کو نصب العین نہیں ٹھہراتا اور باوجود تمام آسائشوں کے اسے ضمائے آخرت کے مقابلہ میں متاع قلیل ٹھہراتا ہے ، اور کافر کی تمام جدوجہد دنیا کے لئے ہے غرض یہ ہے کہ دنیا کے لئے دین کو مت ضائع کرو ، اگر دین کی نعمتوں سے تم نے اپنا دامن بھر لیا ، تو دنیا بھی تمہیں حاصل ہوجائے ، اور اگر صرف دنیا چاہو کے تو دین سے محرومی ہی ممکن ہے ، دنیا بھی نہ ملے اور تم (آیت) ” خسرالدنیا والاخرہ “۔ کا مصداق بن جاؤ ۔
Top