Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 101
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَمَنْ : پس جو۔ جس ثَقُلَتْ : بھاری ہوئی مَوَازِيْنُهٗ : اس کا تول (پلہ) فَاُولٰٓئِكَ : پس وہ لوگ هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
تو جن کے (عملوں کے) بوجھ بھاری ہوں گے۔ وہ فلاح پانے والے ہیں
فمن ثقلت موازینہ فاولئک ہم المفلحون۔ سو جس شخص کا (ایمان اور نیکی کا) پلڑہ بھاری ہوگا وہی لوگ کامیاب ہوں گے۔ مَوَازِیْنُموزون کی جمع ہے یعنی (وزن کئے ہوئے) عقائد اور نیک اعمال بھاری ہوں گے۔ بھاری ہونے سے مراد ہے زیادہ ہونا۔ نیکیوں کا گناہوں کے مقابلے میں نیچے کو جھک جانا۔ یا موازین میزان کی جمع ہے (اور میزان کا معنی ہے ترازو) یعنی جس کی ترازو میں نیکیوں کا پلڑہ نیچے کو جھکا ہوگا۔ موازین کو بصیغہ جمع اس لئے ذکر کیا کہ ہر شخص کی (وزن کشی کی) ترازو الگ ہوگی۔ یا تعدد میزان سے مراد وزن کا تعدد ہے۔ الْمُفْلِحُوْنَنجات پانے والے اور درجات پر پہنچنے والے۔ علمائے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ میزان کا قائم ہونا اور اعمال کا اس میں تولا جانا حق ہے۔ خوارج ‘ معتزلہ اور شیعہ اس کا انکار کرتے ہیں اور اکثر اہل بدعت (جو سلف صالحین کے خلاف عقائد رکھتے ہیں) اس کے منکر ہیں۔ بیہقی نے البعث میں حضرت عمر بن خطاب کی روایت سے حدیث جبرئیل ( علیہ السلام) نقل کی ہے۔ اس حدیث میں ہے کہ جبرئیل ( علیہ السلام) نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا محمد ﷺ ! ایمان کیا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ کو ماننا۔ اللہ کے فرشتوں اور رسولوں کو ماننا اور جنت ‘ دوزخ ‘ میزان اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اٹھائے جانے کا یقین کرنا اور اس بات کو ماننا کہ اچھی بری تقدیر اللہ کی طرف سے (مقرر) ہے (یعنی دنیا میں جو اچھائی برائی ہوتی ہے اللہ نے اس کا علمی اندازہ پہلے سے کرلیا تھا) جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا اگر میں ایسا کرلوں تو کیا میں مؤمن ہوجاؤں گا ‘ فرمایا ‘ ہاں ‘ جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا آپ نے سچ کہا۔ حاکم نے مستدرک میں برشرط مسلم حضرت سلمان کی روایت سے بیان کیا ہے اور اس کو صحیح کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میزان قائم کی جائے گی (اتنی بڑی ہوگی کہ) اگر آسمان و زمین اس میں رکھ دیئے جائیں تو اس میں سما جائیں۔ ابن مبارک نے الزہد میں اور اجری نے الشریعت میں حضرت سلمان ؓ : کا قول موقوفاً نقل کیا ہے اور ابوالشیخ ابن حبان نے اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس کا قول بھی یہی بیان کیا ہے کہ میزان کی ایک زبان اور دو پلڑے ہوں گے۔ ابن ابی الدنیا نے ابن جریر نے اپنی تفسیر میں حضرت حذیفہ کا قول بیان کیا ہے کہ قیامت کے دن میزان والے حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) ہوں گے۔ میزان کے متعلق احادیث متواتر المعنی ہیں۔ فصل وزن کشی کیسے ہوگی۔ کیفیت اور وزن کی تفصیل میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ بندے کو مع اس کے اعمال کے تولا جائے گا مؤمن کا وزن اس کی نیکیوں کے موافق ہوگا اور کافر کا کوئی وزن ہی نہیں نکلے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن بعض لوگ آئیں گے جو عظیم الجثہ اور موٹے ہوں گے اور خدا کے نزدیک ان کا وزن مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا۔ پھر حضور ﷺ نے آیت فلاَ نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزَنًاتلاوت فرمائی۔ متفق علیہ من حدیث ابی ہریرہ ؓ ۔ اس تفسیر کی بنا پر جن لوگوں کا وزن ہلکا ہوگا وہ کفار ہی ہوں گے۔ (گناہگار مؤمن خفیف الوزن نہ ہوں گے) ۔ بعض نے کہا اعمال نامے تولے جائیں گے یعنی وہ صحیفے جن کے اندر نیکیاں اور بدیاں لکھی ہوں گی ‘ ان کی وزن کشی ہوگی۔ ترمذی ‘ ابن ماجہ ‘ ابن حبان ‘ بیہقی اور حاکم نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے بیان کیا اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کے ایک آدمی کو سب کے سامنے لایا جائے گا اور اس کے ننانوے طومار رکھے جائیں گے ہر طومار کا طول بقدر رسائی نظر ہوگا پھر (اللہ اس سے) فرمائے گا کیا اس میں سے کسی بات کا تجھے انکار ہے کیا میری طرف سے اعمال نویسوں نے تیرے اوپر کوئی ظلم کیا ہے۔ وہ شخص عرض کرے گا نہیں ‘ اے میرے رب (اعمال نویسوں نے میری کوئی حق تلفی نہیں کی) اللہ فرمائے گا ‘ کیوں نہیں میرے پاس تیری ایک نیکی ہے تجھ پر آج ظلم مطلقاً نہ ہوگا (اس نیکی کا بدلہ ملے گا) چناچہ اس شخص کا ایک کارڈ نکالا جائے گا جس میں اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗلکھا ہوگا۔ بندہ عرض کرے گا اے میرے رب ان طوماروں کی موجودگی میں اس کارڈ کی کیا حقیقت ہے اللہ فرمائے گا تیری حق تلفی نہیں کی جائے گی ‘ چناچہ تمام طومار ایک پلڑے میں رکھے جائیں اور وہ کارڈ دوسرے پلڑے میں طوماروں والا پلڑا اوپرکو اڑ جائے گا (یعنی اٹھ جائے گا) اور کارڈ بھاری نکلے گا۔ اللہ کے نام سے کوئی چیز بھاری نہیں ہوتی۔ امام احمد نے حسن ‘ صحیح سند سے حضرت ابن عمر کی روایت سے اسی طرح حدیث نقل کی ہے۔ بعض نے کہا اعمال کو مجسم بنا کر تولا جائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آسمانوں کو اور زمین اور ان کے اندر کی اور ان دونوں کے درمیان کی اور ان کے نیچے کی ساری کائنات کو لا کر میزان کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں لا الٰہ الا اللہ کی گواہی کو رکھا جائے تو لا الٰہ الا اللہ کی شہادت والا پلڑہ جھک جائے گا (وزنی نکلے گا) رواہ الطبرانی۔ ابن عبدالرزاق نے علم کی فضیلت کے باب میں اپنی سند سے ابراہیم نخعی کا قول نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے عمل لا کر اس کی ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں گے تو وہ پلڑا ہلکا رہے گا پھر بادلوں کی طرح ایک چیز لا کر ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھ دی جائے گی وہ وزنی نکلے گی۔ پھر اس شخص سے کہا جائے گا تو جانتا ہے یہ کیا ہے وہ شخص جواب دے گا نہیں (میں واقف نہیں) کہا جائے گا یہ علم کی فضیلت ہے جو تو لوگوں کو تعلیم دیتا تھا۔ ذہبی نے علم کی فضیلت کے بیان میں حضرت عمران بن حصین کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن علماء کی روشنائی اور شہیدوں کے خون کا موازنہ کیا جائے گا تو علماء کی روشنائی شہیدوں کے خون سے بھاری نکلے گی۔ میں کہتا ہوں کہ مؤمن بندہ کو مع اس کے نیک اعمالناموں یا مع مجسم نیک اعمال کے (دونوں باتوں کا مطلب ایک ہی ہے) ایک پلڑے میں رکھا جائے گا اور دوسرے کافر بندہ کو مع اس کے برے اعمالناموں کے یا مع اس کے مجسم برے اعمال کے دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا تو کافر کا وزن مچھر کے پر کی برابر نہ نکلے گا۔ اسی کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے (وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ ) یعنی اس کی میزان میں (اس کا) کوئی وزن ہی نہ ہوگا۔ مؤمن کی ترازو میں ضرور (کچھ نہ کچھ) وزن ہوگا خواہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت کے سبب ہی ہو اسی کے متعلق اللہ نے بطور کنایہ فرمایا (فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ ) مگر مؤمن کے ثقل کے درجات ہوں گے جو کبیرہ گناہوں سے بچتے رہے ہوں گے اور اللہ نے ان کے گناہ ساقط کردیئے ہوں گے تو ان کی میزانوں میں وزن سب سے زیادہ ہوگا بدیوں کا پلڑا اڑ جائے گا۔ بالکل خالی رہے گا (اس میں کوئی وزن ہی نہ ہوگا) ۔ اور جن لوگوں کے عمل مخلوط ہوں گے ‘ اچھے عمل بھی ہوں اور برے عمل بھی ان میں جنت کے اندر داخل ہونے کی صلاحیت ہوگی انہیں کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں کی حساب فہمی ہوگی گناہوں کی بہ نسبت ایک نیکی بھی اگر کسی کی زائد ہوگی تو وہ جنت میں چلا جائے گا اور جس کے گناہ نیکیوں سے زیادہ ہوں گے وہ دوزخ میں چلا جائے گا یعنی گناہوں کی کثافت سے پاک صاف بنانے کے لئے اس کو آگ میں داخل کیا جائے گا جیسے لوہا آگ میں پڑ کر میل کچیل سے پاک صاف ہوجاتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ایک دانگ کے وزن سے بھی میزان کا وزن ہلکا بھاری ہوگا اور جن اشخاص کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہوں گی وہ اصحاب اعراف ہوں گے اس وقت تک اعراف میں رہیں گے جب تک اللہ ان کے جنت میں داخلے کا حکم دے دے اس کے بعد جنت میں چلے جائیں گے۔ حضرت ابن عباس ؓ : کا یہ قول ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے اس قول میں کافروں کی حالت کا بیان نہیں ہے کیونکہ کافر کی کوئی نیکی ہی نہ ہوگی اور قرآن میں صرف مؤمنین صالحین کا ذکر ہے یا کافروں کا۔ گناہگار مؤمنوں کا کوئی تذکرہ نہیں اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ نزول قرآن کے زمانہ میں سارے مؤمن صالح ہی تھے سب صحابہ تھے ‘ کبائر سے پرہیز رکھنے والے تھے۔ یا گناہوں سے توبہ کرنے والے تھے اور گناہوں سے توبہ کرنے والے بےگناہ کی طرح ہوجاتے ہیں۔
Top